نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کراچی پولیس مقابلے: اب تو راؤ انوار بھی ڈیوٹی پر نہیں||عفت حسن رضوی

کراچی میں 2020 اور 2021 کو ماورائے عدالت قتل کی واپسی کے سال کہیں تو غلط نہ ہوگا۔ کراچی کو دہشت گردی کی سنگین لہر سے تو بریک ملا مگر اس برس کا کیلنڈر جعلی پولیس مقابلوں میں مارے گئے بےگناہوں کے خون سے رنگین رہا۔

عفت حسن رضوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بارہویں جماعت کے طالب علم ارسلان محسود اور یاسر کوچنگ سینٹر سے چھ دسمبر کی رات نو بجے گھر جا رہے تھے۔ چودہ پندرہ برس کے دونوں لڑکے نئی ون ٹو فائیو موٹر سائیکل پر تھے کہ اورنگی ٹاؤن پانچ نمبر کی سڑک پر دو افراد نے انہیں روکا اور فائر کھول دیا۔ یاسر زخمی حالت میں بھاگ گیا، ارسلان سینے پہ گولی لگنے سے دم توڑ گیا۔

پولیس نے وہی کہا جو ہمیشہ کہتی چلی آرہی ہے کہ جناب ’پولیس مقابلہ ہوا، ملزم مارا گیا، ایک فرار ہو گیا، اسلحہ برآمد کرلیا۔‘

تحقیقات لیکن دعوؤں کے برعکس نکلیں۔ پولیس والے یونیفارم میں نہیں تھے، لڑکوں کو پولیس چوکی پر نہیں روکا اور مزاحمتی ردعمل نہیں تھا، پھر بھی پولیس نے فائرنگ کی۔

اگرچہ پولیس کا نام ڈبونے والے اہلکار اور ایس ایچ او گرفتار ہیں لیکن کراچی پولیس اپنے اہلکاروں کی اس سفاکیت کو کس کھاتے میں ڈالے گی؟ اب تو راؤ انوار بھی ڈیوٹی پر نہیں۔

نامعلوم قاتلوں کے ہاتھوں مارے جائیں تو ناگہانی اور ہے مگر جب شہریوں کے سینے میں اترتی گولیاں بھی ہم عوام کے پیسوں کی ہوں، جس بندوق سے نشانہ بنیں وہ بھی ہمارے ٹیکس سے خریدی گئی ہو اور محافظ کی شکل میں قاتل بھی سرکاری خزانے کا تنخواہ دار ہو تو تکلیف اور غصہ دوہرا ہوجاتا ہے۔ بے جرم شہری تو دور کی بات مطلوب ملزم ہی کیوں نہ ہو سڑکوں پر سزائیں دینا پولیس کا کام نہیں۔

جعلی پولیس مقابلے کے بعد سسٹم کی کوشش ہوتی ہے کہ مقتولین کے گھر والوں کے زخم ہرے اور تکلیف تازہ رہے۔ گھر والے مقتول کو بے گناہ ثابت کرنے میں جُت جاتے ہیں اور ادھر ملزم پولیس اہلکار ضمانت حاصل کر لیتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے کراچی میں جعلی پولیس مقابلوں میں ساڑھے چار سو افراد کو قتل کرنے کا ملزم ’انکاؤنٹر سپیشلسٹ‘ راؤ انوار اینڈ کمپنی ضمانت پر رہا ہیں۔

کراچی میں 2020 اور 2021 کو ماورائے عدالت قتل کی واپسی کے سال کہیں تو غلط نہ ہوگا۔ کراچی کو دہشت گردی کی سنگین لہر سے تو بریک ملا مگر اس برس کا کیلنڈر جعلی پولیس مقابلوں میں مارے گئے بےگناہوں کے خون سے رنگیں رہا۔

سال 2021 کی ابتدا سائٹ کے علاقے میں جعلی پولیس مقابلے سے ہوئی جس میں ہنزہ کا طالب علم سلطان نذیر نشانہ بنا۔ اپریل میں پی آئی بی میں بھتہ خوروں کو پکڑنے کا آپریشن ہوا، پولیس نے کہا دو ملزمان مقابلے میں ہلاک ہوئے، ویڈیو آئی تو کھلا کہ ملزمان کو جب پولیس نے پکڑا وہ زندہ تھے۔

ابھی پچھلے دنوں کورنگی میں فیکٹری ملازم واصف کو پوائنٹ بلینک پہ مار دیا گیا اور پھر وہی راگنی کہ پولیس مقابلہ ہو رہا تھا۔

ہر جعلی پولیس مقابلے کے بعد کہہ دیا جاتا ہے ’ہم یہ سمجھے ڈاکو ہے اور گولی چلا دی۔‘ فرق اتنا ہے کہ راؤ انوار کے دور کا کام پختہ ہوتا تھا، ملزم پر ڈکیتی نہیں سیدھا دہشت گردی کا الزام ڈالا جاتا تھا جس سے امان ملنا مشکل تھی، ملک ویسے ہی ان دنوں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا تھا، یوں راؤ انوار کو بظاہر سپیشل لائسنس ٹو کِل ملا ہوا تھا۔

اب کیا ہے؟ اب تو جنگ تھم چکی، راؤ انوار بھی پکی چھٹی پر ہے۔ پولیس رینکس میں بیٹھے کریمینل ذہنیت کے چھوٹے بڑے راؤ انواروں کی نشاندہی اور چھانٹی کب ہوگی؟ بار بار نقیب اللہ محسود والی کہانی کب تک دہرائی جائے گی؟

ایس ایچ او ملیر سے لے کر ایس ایس پی راؤ انوار بننے تک آپ اس ایک پولیس افسر کے کیریئر کی کیس سٹڈی کیجیے۔ اس نے چور اور سپاہی، گینگسٹر اور محافظ، ٹارگٹ کلر اور پولیس شارپ شوٹرز، کرائم ریکٹ اور پولیس پارٹی کے درمیان فرق ختم کر دیا تھا۔

سلاخوں کے پیچھے ہو یا ضمانت پر باہر راؤ انوار کا مبینہ نظریہ اور طریقہ مختلف تھانوں، چھاپہ مار ٹیموں، پولیس چوکیوں، گشت کرتی پولیس موبائلوں میں کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی شکل میں ہمارا منہ چڑا رہا ہے۔

چند برس قبل پاکستان جرنل آف میڈیسن اینڈ ڈینٹسٹری میں تحقیقاتی رپورٹ شائع ہوئی جو کراچی میں فارنسک ماہر ڈاکٹرز نے تیار کی تھی۔ سن 2011 سے 2014 کے درمیان کراچی پولیس مقابلوں میں ہلاک 260 افراد کی لاشوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹس کو اس تحقیق کی بنیاد بنایا گیا۔

 تحقیق کے مطابق جعلی پولیس مقابلوں کا نشانہ بننے والے 50 فیصد افراد کی عمر 30 برس سے کم تھی اور لگ بھگ 50 فیصد مقتولین کو گولیاں سیدھی سینے اور پیٹ میں ماری گئیں۔

کراچی میں پولیس مقابلے چاہے نوے کی دہائی میں ایم کیو ایم کے خلاف ریاستی آپریشن میں ہوئے، راؤ انوار نے کرائے یا اب ہو رہے ہیں، ایک قدر تو مشترک ہے کہ پولیس کا مقصد مزاحمت کے دوران ملزم کو زخمی کرکے پکڑنا نہیں ہوتا، گولی چلائی ہی مارنے کے لیے جاتی ہے۔

پولیس کا محکمہ ہزاروں ایماندار افسران، سپاہیوں اور ڈیوٹی کی خاطر اپنی جانیں قربان کرنے والے اہلکاروں کے دم قدم سے ہے، مگر انہی کی صفوں میں بظاہر قاتل بھی چھپے ہیں۔

پولیس ریفارمز پہ بڑا کام ہوا، بہت ہونے والا ہے۔ کم از کم بڑے شہروں کی پولیسنگ میں جدید تکنیک لائی جاسکتی ہیں، جیسے پولیس موبائل پر ڈیش بورڈ کیمرے ہوں، اسلحے کے استعمال کی اجازت صرف تربیت یافتہ جوانوں کی دی جائے، مسلح اہلکاروں کی نفسیاتی صحت کا چیک اپ ہو اور اسلحہ بردار پولیس اہلکاروں کے لیے وہ یونیفارم لازمی ہوں جس میں کیمرا لگا ہو۔

 پولیسنگ کوئی ایکشن فلم تو نہیں کہ بات بات پہ گولیاں چل جائیں، بیسیوں طریقے دنیا میں رائج ہیں، بے ہوشی کے سپرے، سٹن گن، ٹیسر، الیکٹرانک ڈیوائسسز، کیمکل ڈیوائسسز۔ ہونے کو تو کیا نہیں ہو سکتا اگر واقعی پولیس بجٹ کو ٹھیک استعمال کیا جائے۔

ہر بار یہ کہہ کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی کہ جب عدالتوں سے سزا نہیں ملے گی تو پولیس ہی مجرموں کا کام تمام کرے گی۔ پولیس فورس کے بڑوں کو اپنا اعتماد بحال کرنے کے لیے حکومتوں سے اپنے حصے کے وسائل نکلوانا ہوں گے اور وسائل سے بھی بڑھ کر پولیس میں وائرس کی طرح پھیلتے ’راؤ انوار سنڈروم‘ کا علاج ڈھونڈنا ہوگا۔

یہ بلاگ  انڈیپینڈنٹ اردو پر شائع ہوچکاہے

یہ بھی پڑھیے:

دے دھرنا۔۔۔عفت حسن رضوی

کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی

ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی

ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی

خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی

فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی

عفت حسن رضوی کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author