عفت حسن رضوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائرن بجاتی پولیس کی گاڑیاں بھی نظر نہیں آتیں، جگہ جگہ پولیس چوکی بھی عوام کے ساتھ سانپ سیڑھی نہیں کھیل رہی۔ یورپی ممالک میں ریاستی اداروں نے نظام چلانے کے لیے قواعد کے سیٹ بنا رکھے ہیں، جس پر ریاست اپنی عوام سے یہ امید لگاتی ہے کہ وہ ان قوانین پر عمل کریں گے۔ جیسے عوام اپنی کمائی کا ایک بھرپور حصہ ٹیکس کی شکل میں اس بھروسے پر حکومت کے حوالے کرتے ہیں کہ حکومت ان کے محنت سے کمائے پیسے ان ہی کہ فلاح پر خرچ کرے گی۔ عوام اور ریاست کے درمیان بھروسے کا یہ سسٹم خوب چل رہا ہے۔
ڈاکٹر قاسم نیازی عرصہ دراز سے یورپ میں ہیں ان سے پوچھا کہ یہ کیسا بھروسہ ہے کہ پاکستان سے آئے تارکین وطن پر بھی وہی اعتماد ہے، جیسا اپنے شہری پر؟ ڈاکٹر قاسم کہنے لگے کہ یہاں ریاست اور عوام کے درمیان عمرانی معاہدے کی بنیادی کڑی اعتماد ہے اور عوام کی اس تعریف میں تارکین وطن بھی آتے ہیں۔ جیسے کہ ایک دو دن کے لیے بیماری کی چھٹی بغیر کسی ڈاکٹر کی تصدیق کے لی جاسکتی ہے اور ادارے کو یہ اجازت نہیں کہ وہ اپنے کارکن سے پوچھے کہ اُسے کیا بیماری ہے؟
میں نے جھٹ کہا کہ پھر تو ملازمین آئے روز چھٹی لے بیٹھتے ہوں گے، کہنے لگے کہ یہاں ملازم کی چھٹی نہیں، اس کے کام کی ڈیلوری اہم ہے۔ کئی ممالک میں نہ صرف ملازمین بلکہ یونیورسٹی کا کوئی طالب علم اگر یہ درخواست دے کہ وہ بیماری کے باعث امتحان نہیں دے سکتا تو یونیورسٹی تصدیق کے لیے کوئی ڈاکٹری نسخہ نہیں مانگتی بلکہ دوبارہ امتحان کا موقع دیتی ہے۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنی آسانی سے ملنے والی اس سہولت کا غلط استعمال بہت خال خال ہی ہوتا ہے۔
مثلاً ناروے میں شہری ٹرانسپورٹ کا نظام مسافروں کی ایمانداری پر تکیہ کرتا ہے۔ شہر کے اندر یا کاؤنٹیز کے درمیان چلنے والی ٹرین میں سوار ہونے تک کسی چیکنگ سے گزرنا نہیں پڑتا۔ ٹرین دو آپشن دیتی ہے اگر ٹکٹ موجود ہے تو الگ بوگی ہے، جہاں کوئی چیکنگ نہیں اور اگر ٹکٹ دوران سفر خریدنا ہے تو الگ بوگی ہے۔ اب یہ خالصتاً مسافر کی ایمانداری پہ منحصر ہے کہ وہ کس بوگی میں بیٹھے کیونکہ یہ نظام مسافر پہ اعتماد کرتا ہے۔
میں نے دوستوں سے پوچھا کہ ناروے میں ٹرانسپورٹ ذرائع ٹھیک ٹھاک مہنگے ہیں، پھر بھی اس سسٹم میں تو بڑا جھول ہے، کتنے ہی لوگ بغیر ٹکٹ سفر کرتے ہوں گے۔ جواب ملا کہ کبھی قسمت سے کوئی چیکر ٹکٹ چیک کر بھی لے تو سینکڑوں مسافروں میں بمشکل کوئی ایک ٹکٹ چور نکلتا ہے مگر ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہے۔ کوئی چیک کرے یا نا کرے، لوگ ٹکٹ لیتے ہیں۔
ایسے ہی مغربی ممالک میں آٹو چیک آوٹ کی سہولت بڑی حد تک خریداروں کی ایمانداری پر انحصار کرتی ہے۔ یعنی بڑے اسٹورز میں خریداری کے بعد باہری دروازے کے قریب لگے مانیٹرز پر جائیں، جو چیزیں لی ہیں، انہیں اسکینر کے سامنے لائیں، قیمت مانیٹر پر آجائے گی۔ اسے کارڈ سے ادا کریں اور سامان شاپر میں ڈال کر چلے جائیں۔
میں نے سوچا ہزار کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہو، دو نمبری تو پھر بھی ممکن ہے۔ پاکستان انڈیا سے کتنی ہی سی سی ٹی وی فوٹیج وائرل ہوتی ہیں کہ چور اور چورنیاں کیسی مہارت سے ہاتھ کی صفائی دکھا جاتے ہیں۔ میں نے ایک عزیز کو کال ملائی، جو بیس برس سے لندن کی مشہور آکسفورڈ اسڑیٹ کے تجارتی مراکز میں سیکورٹی اینڈ سرویلنس میں کام کر رہے ہیں بلکہ اب تو نگراں بن چکے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگ خریداروں پہ اتنا اعتماد کیسے کرتے ہیں؟
انہوں نے بتایا کہ اچھی سرویلنس، کیمرے، آٹو ڈی ٹیکٹر، میگنٹ وغیرہ سب اپنا کام کرتے ہیں۔ اس کے باوجود چوری چکاری کے واقعات ہوتے ہیں مگر ان کی گنتی بہت کم ہے۔ بنیادی طور پر یہاں مغرب میں صارف کی اچھی نیت پہ اعتماد کیا جاتا ہے۔ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی صارف دوران شاپنگ کوئی چیز اپنی جیب میں رکھ لے اور بغیر ادائیگی لے جائے، چاہے اس نے چوری ہی کیوں نہ کی ہو مگر ایسے کیسسز میں صارف سے رجوع کر کے اسے یہ مارجن دیتے ہیں کہ ہو سکتا ہے، اس نے بے خیالی میں ایسا کیا ہو اور وہ ادائیگی کرنا بھول گیا ہو۔
میں نے سوچا کہ سبحان اللہ اتنا اعتماد۔ ہمارے یہاں تو جب تک قانونی دستاویز کی دس فوٹو کاپیاں گریڈ اٹھارہ کے افسر سے آگے پیچھے سے مصدقہ اسٹامپ نہ کرائی جائیں بھروسہ ہی نہیں آتا کہ سرکاری کاغذ اصلی ہے۔
مغربی ممالک میں بات بات پہ قانون اور قواعد ہیں اور ایسے سخت ہیں کہ گھر میں کہاں کھڑکی کھولنی ہے، میوزک کا والیم کتنا اونچا رکھ سکتے ہیں، گاڑی کی کب کہاں کیا رفتار ہونی چاہیے؟ سب پہ ریاست کا ڈنڈا موجود ہے مگر یہ نظر نہیں آتا۔
مغربی ممالک میں ریاست، قانون، اداروں اور افراد کا ایک دوسرے پہ اعتماد اور اندھا بھروسا دیکھیں اور اس کا موازنہ اپنے دیسی معاشرے کی چھوٹی چھوٹی نوسربازی سے کریں تو اپنی لوگوں کی اخلاقی اور ذہنی پس ماندگی کا اندازہ خوب ہوتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں بے اعتمادی، چوری، وعدہ خلافی، جھوٹ اور خیانت جب تک بڑے ناقابل معافی جرائم تصور نہیں کیے جائیں گے، جب تک ہم ملک کے بڑے مگر مچھوں پہ انگلیاں اٹھاتے رہیں گے مگر اپنی دو نمبری کو نہیں سدھاریں گے، تب تک قومی احتساب بیورو جیسے ہزاروں ادارے بنا لیں قوم کا اداروں اور اداروں کا اپنی عوام پہ بھروسا بحال نہیں ہو سکتا۔
یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اردو پر شائع ہوچکاہے
یہ بھی پڑھیے:
کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی
ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی
ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی
خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی
فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر