نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چل بھلیا اوتھے چلیے جتھے سارے ہوون اَنے۔۔۔||گلزار احمد

کیسا سکھی پیار و محبت کا زمانہ ھو گا۔ ڈیرہ اسماعیل خان ایک پیار محبت اور خلوص شائستگی کا شھر تھا پھر ہمارے جیسے لوگ پیدا ہوئے ہم نے انتشار اور نا اتفاقی کے بیج بوۓ پھر اس کی فصل کاٹی ۔یہ سلسہ رکتا ہی نہیں

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ۔۔
1904 کا زمانہ ڈیرہ اسماعیل خان میں خوشیوں کا بہترین زمانہ تھا۔اس وقت شھر میں سیاست کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ کوئی مذھبی تعصب یعنی کوئی شیعہ سنی جھگڑا نہ تھا اور نہ ہندو مسلمان کی کوئی لڑائی ۔ ہر سو خوشیاں تھیں ۔لوگ ایک دوسرے سے پر خلوص محبت کرتے تھے۔مسلمان اور ہندو ایک دوسرے کی خوشیوں کے تہواروں یعنی عید اور دیوالی کے موقع پر ایک دوسرے کو مٹھایاں دیا کرتے تھے۔“
یہ اقتباس میں نے محترم غلام حسین دامانی کی کتاب ” سر زمین گل “ سے درج کیا ھے۔ اس کتاب میں 1901 سے 1981 تک کے ڈیرہ اسماعیل خان کے دلچسپ واقعات لکھے گئے ہیں۔ اب آپ غور کریں کہ یہ کتاب 1981 میں لکھی گئی ھے جب مصنف نے نہ تو دھشت گردی دیکھی تھی ۔نہ بم دھماکے نہ خودکش حملے نہ ٹارگٹ کلنگ۔ نہ سیاستدانوں کی لوٹ کھسوٹ نہ فرقہ بندی۔۔۔اس کے باوجود مصنف نے سیاست ۔ فرقہ بندی اور مذھبی تعصب کو معاشرے کا ناسور سمجھا ھے ۔ ایک ہم ہیں کہ اس فضا کے قہر اور زھر میں مر مر کے جئے جا رھے ہیں ۔ہندو تو اب سرے سے ڈیرہ سے چلے گئے ہم ہی ہم ہیں مگر پھر بھی امن و سکون سے رہنا نہیں سیکھا۔۔۔۔ دل خوش کرنے کے لئے اس کتاب کی روشنی میں 1904 کے ڈیرہ کی شادی کی تقریبات دیکھتے ہیں ۔ شادی کی تاریخ طے ہونے کے بعد سب سے پہلے صرافہ بازار چلتے ہیں۔ ہاں سنار بھائی ذرہ بتاو سونے کا کیا ریٹ ھے؟؟ پندرہ روپے تولہ اور ایک پختہ سیر سونا 1500 روپے میں ۔۔۔ اچھا چاندی کس طرح دو گے؟ سنار کہتا ھے چھ آنے تولہ اور 37روپے کا پختہ سیر ۔۔۔۔۔۔ اچھا یار یہ زیورات سونے کے اور یہ چاندی کے بنا دینا اور اصلی گھنگرو موتیوں والے ڈالنا۔۔۔اور ایک ہفتہ میں تیار ھوں ۔۔۔۔ چلو اب بندو رام سے شادی کے ولیمہ کے سامان کا آرڈر کرتے ہیں۔۔ ہاں بھائی بندو رام ذرا چاول اور خالص دیسی گھی کے تھوک نرخ بتانا شادی کی دیگیں پکانی ہیں ۔ بندو جواب دیتا ھے اصلی چاول ایک روپے کے تین سیر ملیں گے اور خالص گھی ایک روپے کا سوا سیر آۓ گا۔ٹھیک ھے چھ دیگوں کا سامان اس کاغذ پر لکھے پتہ پر بھجوا دو ۔۔ اس کا بل وہیں گھر سے لے لینا۔ پھر قصائی کی دکان پر چار آنے گوشت فی سیر خریدنے کا سودا طے ہوتا ھے اور مقرہ دن کا آرڈر کر دیا جاتا ھے۔ یاد آیا دیگوں کے لئیے لکڑی بھی خریدنی ھے ۔۔۔ ٹاون ہال کےسامنے لدے ہوۓ خشک لکڑی کے اونٹ کھڑے ہیں ۔۔ بھاو تاو ہوتا ھے اور چار آنے فی بار یعنی مکمل لکڑی سے لدا ہوا اونٹ گھر روانہ ہو جاتا ھے۔ اب صرف دلھن کے کپڑے خریدنے ہیں ۔ مشھور ہندو بزاز لالہ جی کی دکان پر چڑھتے ہیں اور اس سے بہترین قسم کے ریشمی ۔ بنارسی سوتی تھان اٹھوا کر گھر بھجوا دیئے جاتے ہیں ۔۔ عورتیں پسند کرتی ہیں واپس دکان پر آرڈر کے مطابق کپڑے کاٹ دئیے جاتے ہیں۔ گھر ہاتھ سے کپڑے سلائی کرنی والی درزن اور درزی آتے ہیں اور انکو سائز سمجھا کر کپڑے دے دئیے جاتے ہیں۔ کرتا۔شلوار اور دوپٹے پر گوٹہ کناری کا کام ھو گا وہ درزی کے پاس بیٹھا کاریگر مرد یا عورتیں کر دینگی ۔ گوٹی کناری کے پھول بھی کاڑھے جائیں گے۔ ادھر چوڑیگر کو بلایا جاتا ھے جو ہاتھی دانت سے مطلوبہ سائیز کی چوڑیاں بنا دے گا ۔ مسلمانوں کی شادی کے دن تین کھانے تیار ھوتے ہیں پلاو ۔۔زردہ ۔۔قورمہ۔۔ چھ سو نفر کے لئے کمہار سے دو ھزار پھیلیاں منگوئی جاتی ہیں ۔ یہ مٹی کی بنی ہوئی پلیٹیں ہیں۔ جب کھانا تیار ھوتا ھے اس کو برادری اور دوستوں کے ہر گھر پہچانے کا رواج ھے۔ گھر کے ہر فرد کا مینو مقرر ھے۔ ایک نفر کے لئیے تین پھیلیاں پلاو۔۔تین پھیلیاں زردہ۔۔تین پھیلیاں قورمہ اور دو عدد روٹیاں تقسیم کر دی جاتی ہیں ۔ ہندووں کی شادی میں خاص چاول نمک ڈال کے ابال لئیے جاتے ہیں ۔ساتھ دیسی گھی۔چینی اور سوجی کا بہترین حلوہ تیار ھوتا ۔۔ پیتل کی بڑی پلیٹ آدھی چاول اور آدھی حلوے سے بھر کر تمام برادری کے گھروں میں پہچائی جاتی۔ یہی تھالیاں ہندو اپنے مسلمان پڑوسیوں اور دوستوں کو بھی دیتے اور مسلمان بھی اپنا کھانا ان ہندووں کو پیش کرتے۔۔۔ کیسا سکھی پیار و محبت کا زمانہ ھو گا۔ ڈیرہ اسماعیل خان ایک پیار محبت اور خلوص شائستگی کا شھر تھا پھر ہمارے جیسے لوگ پیدا ہوئے ہم نے انتشار اور نا اتفاقی کے بیج بوۓ پھر اس کی فصل کاٹی ۔یہ سلسہ رکتا ہی نہیں ۔آج ہمارے جلسے ہمارے تہوار ایک دوسرے کو گالیاں دینے اور انتشار پھیلانے کے لیے ہیں ۔پیار کی بات کوئ نہیں کرتا سب کے منہ سے دھواں اور آگ نکل رہی ہے ؎
چل بُھلیا ! ہُن اوتھے چلیے جتھے سارے ہوون انھے
ناں کوئی ساڈی ذات پچھانے ، ناں کوئی سانوں منے

About The Author