عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت آنکھ مچولی کا کھیل جاری ہے۔ مقتدرہ انا کی جنگ میں کبھی ایک قدم پیچھے اور کبھی ایک قدم آگے ہے۔ بظاہر یہ تسلیم کیا جا چُکا ہے کہ تبدیلی پراجیکٹ ناکام ہوا۔ یہ بھی تسلیم ہو چکا کہ اپوزیشن اور خصوصا ن لیگ کے ساتھ بات چیت ضروری مگر اپنی شرائط پر۔
ہر گزرتا دن اور گزرتی گھڑیاں کھیل کی شرائط تبدیل کر رہی ہیں اور ہر حال میں بازی جیتنے والوں کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گذشتہ تین سال کی طاقت ورپالیسیوں نے سیاسی جماعتوں کو ہار اور جیت سے کسی حد تک بالاتر کر دیا ہے۔
پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا ہے اور اب بند باندھنا ہی اصل امتحان ہے کہ انا بھی برقرار رہے اور ہر بار کی طرح اس بار بھی ناکامی کا ملبہ سیاسی حکومت پر ہی گرے۔
ہر گُزرتے دن کے ساتھ عوام کی سوچ بدل رہی ہے۔
ضروریات زندگی پورے کرتے عوام تھک رہے ہیں۔ بند کمروں میں کی جانے والی باتیں چوک چوراہوں میں ہو رہی ہیں۔ لاکھ موضوع بدلیں تبدیلی کی ناکامی کا ذمہ دار صرف تحریک انصاف کو نہیں ٹھہرایا جا رہا۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ عوام کے غم اور غصے کا تدارک نہ ہوا تو عوام پھٹ پڑیں گے۔ مایوسی سے نکلنے کی واحد مشق عوام کے ووٹ کا استعمال ہے جس کا مظاہرہ خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی انتخابات سے لگایا جاسکتا ہے۔ کیا حالات عام انتخابات کی جانب ہی بڑھ رہے ہیں مگر کیسے؟
اپوزیشن ان ہاؤس تبدیلی کی خواہاں اب نہیں دکھائی دیتی۔۔ حکومت خود انتخابات کا اعلان کرے گی؟۔۔۔ نہیں۔۔ تو کیا آخری آپشن احتجاج ہی ہے؟
طاقت ور حلقوں کو اس بات کا پوری طرح سے احساس ہے کہ گذشتہ چار سال یا اس سے قبل کی حکمت عملی نے اس محاذ پر ناکامی سے دوچار کر دیا ہے۔ تحریک انصاف بھی ناکامی کی پوری ذمہ داری لینے کو تیار نہیں لیکن آدھی ناکامی کس کے حصے میں ہے اس پر بھی بات کرنے میں ہچکچا رہی ہے۔
ایک دوسرے سے وابستہ مفادات پس منظر میں جاتے دکھائی دے رہے ہیں تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ آئندہ کا خاکہ بنانے میں طاقت ور حلقے دلچسپی نہیں رکھتے۔۔۔ لیکن کیا اس بار اُن کو وہی کندھے دستیاب ہیں جو ہمیشہ ہوتے تھے تو سر دست جواب نہیں میں ہے۔ سوال اختیار اور انتخاب کے درمیان وقت کے تعین کا ہے اور وقت ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔
تحریک انصاف کی کارکردگی نے جہاں آپشنز کو محدود کیا ہے وہیں پر ’نئے انتخاب‘ کے لیے وقت بھی محدود کر دیا ہے۔
معاشی صورتحال قوم کو نا اُمید کر رہی ہے اور قرضوں کی ریشمی ڈور آہستہ آہستہ قومی مفادات کو جکڑتی جا رہی ہے۔
ایک جانب بین الاقوامی سطح پر دباؤ تو دوسری جانب ایک عالمی کیمپ سے دوسرے میں جانے کی کوشش، افغانستان کے بڑھتے مسائل، آنے والے دنوں میں امن و امان کو لاحق خطرات۔۔۔ خطے میں نئی گیم کے اصول طے ہو رہے ہیں ایسے میں مسائل سے نکلنے کے لئے حالات قومی سطح پر یکجہتی اور صحیح معنوں میں عوامی نمائندگی کے متقاضی ہیں۔
موجودہ قیادت بہر حال اس سے نمٹنے میں کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔
نواز شریف کسی صورت اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تو آصف زرداری بھی موجودہ حکمرانوں کی ’چھٹی‘ تک مفاہمت پر رضامند نہیں۔
مولانا فضل الرحمان جس بیانیے پر کھڑے ہیں عوام نے بلدیاتی انتخابات میں اُس کی حمایت کر دی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کو دن بہ دن تقویت مل رہی ہے۔
عوامی طاقت کے لیے پی ڈی ایم 23 مارچ کو اسلام آباد کا رُخ کرے گی، بالآخر پیپلز پارٹی اور اے این پی کو بھی عوامی دباؤ کے تحت احتجاج کا ہی آپشن اختیار کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر حزب اختلاف عوامی دباؤ بڑھانے میں کامیاب ہوتی ہے تو عام انتخابات کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا۔
مقتدرہ ایسی صورتحال میں سیاسی جماعتوں کو کس حد تک جگہ دے گی یہ دیکھنا اہم ہو گا۔
طاقت ور حلقوں کو اپنی جگہ سے پیچھے قدم ہٹانا پڑیں گے۔ دو قدم پیچھے ہٹ جانے سے مسائل حل ہوتے ہیں اور دو قدم آگے بڑھنے سے سیاسی نظام کو استحکام ملتا ہے تو کیا بُرا ہے۔ دو قدم آگے دو قدم پیچھے ہوتی مقتدرہ کو فیصلہ تو اب کرنا پڑے گا۔
عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
یہ دھرنا بھی کیا دھرنا تھا؟۔۔۔عاصمہ شیرازی
نئے میثاق کا ایک اور صفحہ۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ