دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سپریم کورٹ نے 16 ہزار برطرف ملازمین کو بحال کردیا

8 گریڈ سے اوپر والے ملازمین کو ٹیسٹ دینا ہو گا۔۔۔ نومبر 1996 سے اکتوبر 1999 تک بھرتی ملازمین کا اگر ٹیسٹ نہیں لیا گیا تو انہیں ٹسٹ دینا ہوگا۔ جن کی ملازمین کی مس کنڈیکٹ پر نوکری ختم ہوئی تھی وہ بحال نہیں ہونگے

سپریم کورٹ نے ملازمین کیس کا مختصر تحریری فیصلہ جاری کردیا

آٹھ صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا

جن ملازمین کو مس کنڈکٹ،کرپشن اور عدم حاضری پر برطرف کیا گیا ان پر فیصلے کا اطلاق نہیں ہوگا،تحریری فیصلہ

ملازمین کی بحالی اور ترقیاں محکموں کے قواعد و ضوابط کے مطابق ہوں گی،مختصر تحریری فیصلہ

کیس کا تفصیلی فیصلہ اور وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی،مختصر تحریری فیصلہ

سیکڈ ایمپلائز ایکٹ 2010 آئین کے آرٹیکل 25،18 اور 9 کے متصادم ہے،تحریری فیصلہ

آئین کے آرٹیکل 184/3 اور 187 کے تحت ملازمین کو مشروط بحال کیا جاتا ہے،تحریری فیصلہ

جن ملازمین نے 1996 اور 1999 میں محکمانہ ٹیسٹ دیئے انکو دوبارہ ٹیسٹ نہیں دینا ہوگا،مختصر فیصلہ

جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ بھی مختصر فیصلے کا حصہ

پارلیمانی نظام حکومت میں پارلیمان سپریم ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ

سیکڈ ایمپلائز ایکٹ کالعدم قرار دینے کیخلاف نظرثانی اپیلوں کو منظور کیا جاتا ہے،جسٹس منصور علی شاہ

سیکڈ ایمپلائز ایکٹ کے بعد نکالے گئے ملازمین کو تمام مراعات دی جائیں،جسٹس منصور علی شاہ

مضبوط جمہوری نظام میں پارلیمان ہی سپریم ہوتا ہے، جسٹس منصور علی شاہ

پارلیمنٹ کو نیچا دکھانا جمہوریت کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے،جسٹس منصور علی شاہ

ایکٹ آف پارلیمنٹ کی شق چار آئین سے متصادم ہے، جسٹس منصور علی شاہ

سیکشن چار، اور سیکشن 10 آئین سے متصادم ہیں جس کا جائزہ لینا ہے،جسٹس منصور علی شاہ

 

سپریم کورٹ نے 16ہزار برطرف ملازمین سے متعلق کیس کا فیصلہ سنادیا،عدالت عظمی نے سیکڈ ایمپلائز ایکٹ کالعدم قرار دینے کیخلاف نظرثانی اپیلیں مسترد کردیں تاہم ، عدالت نے184تھری کے تحت کئے گئے فیصلے میں ایک سے سات گریڈ تک کے ملازمین کو بحال کر دیا۔ ایک سے سات گریڈ تک ملازمین کواس تاریخ سے بحال کیا گیا جب انہیں نکالا گیا۔

8 گریڈ سے اوپر والے ملازمین کو ٹیسٹ دینا ہو گا۔۔۔ نومبر 1996 سے اکتوبر 1999 تک بھرتی ملازمین کا اگر ٹیسٹ نہیں لیا گیا تو انہیں ٹسٹ دینا ہوگا۔ جن کی ملازمین کی مس کنڈیکٹ پر نوکری ختم ہوئی تھی وہ بحال نہیں ہونگے،بحالی کے وقت جن ملازمین کو ایک گریڈ اوپر ترقی دے کر بحال کیا گیا وہ واپس اپنے گریڈ پر جائینگے، جن ملازمین کی مس کنڈیکٹ پر نوکری ختم ہوئی تھی وہ بحال نہیں ہونگے، بحالی کے وقت جن ملازمین کو ایک گریڈ اوپر ترقی دے کر بحال کیا گیا وہ واپس اپنے گریڈ پر جائینگے،

سپریم کورٹ کا فیصلہ چارایک کے تناسب سے آیا،،جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ تحریر کیا
مختصر فیصلے میں کہا گیاہے کہ کچھ ملازمین کو مدت ملازمت کے حساب سے ریلیف دیا گیا ہے، کچھ ملازمین کو مدت ملازمت کے حساب سے ریلیف دیا گیا ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ میں نظرثانی اپیلوں کو تسلیم کیا ہے، ملازمین کو ٹینئور کے حساب سے ریلیف دیا گیا ہے،درخواست گزاروں کے وکلا کے شکر گزار ہیں جنہوں نے عدالتی معاونت کی،تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا عدالت نے ملازمین کے ڈیٹا سے متعلق جو سوالات اٹھائے ہیں اس کے بارے میں آگاہ کیا جائے،  عدالت نے آرٹیکل 184/ 3 اور آرٹیکل 187 کے اختیار استعنال کرکے فیصلہ سنایا،

سپریم کورٹ نے 16 ہزار برطرف ملازمین کو بحال کردیا جبکہ ملازمین کی نظرثانی اپیلیں خارج کی گئی ہے۔

سپریم کورٹ کی طرف سے درخواستیں 4ایک کے تناسب سے خارج کی گئیں

گزشتہ روز جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں5رکنی لارجر بینچ   نے کیس کی سماعت  میں فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد جسٹس عمر عطا بندیال  نے کہا کہ فیصلہ کل ساڑھے گیارہ بجے سنایا جائے گا، یہ نظرثانی درخواست نہیں پورا کیس دوبارہ سنا گیاہے۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت ملازمین کی بحالی چاہتی ہے، ہم نے کل جو تجاویز دی ہیں وہ درخواست گزاروں کی رضامندی سے مشروط کیا گیاہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا گریڈ ایک سے سات تک کے ملازمین کو بحال کر دینا چاہیے، جو ملازمین مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتے ہیں وہ تجاویز میں شامل نہیں،اگر فریقین رضامند نہ ہوں تو حکومت نظر ثانی کے موقف پر قائم ہے۔
خالد جاوید خان نے کہا یہ تعین کہیں نہیں ہوا کہ ملازمین کی بھرتیاں قانونی تھیں یا نہیں، بحالی کے قانون میں ملازمین کو اگلے گریڈ میں ترقی دی گئی تھی، عدالت قانون بحال کرتے ہوئے اگلے گریڈ میں ترقی نہ دے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا اٹارنی جنرل صاحب آپ مفروضوں پر بات کر رہے ہیں،متعلقہ ادارے ہی اس حوالے سے اصل صورتحال بتا سکتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا اگر کسی کی ترقی جاتی ہے تو6 ہزار یا 16 ہزار ساتھیوں کیلئے قربانی دے۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا آپ کے کہنے کا مقصد ہے اگر درخواستیں خارج ہوتی ہیں تو حکومت ان تجاویز پر عمل کرے گی؟
اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ نظر ثانی منظور کرے اور فیصلہ دے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا یہ کیس نظر ثانی سے بھی مختلف نوعیت کا ہے،بہت بڑی تعداد لوگوں کی متاثر ہوئی جو 184/3 میں آرہا ہے،مفاد عامہ کی مشق پہلے ہی ہوچکی ہے،ہم بنیادی حقوق کا تحفظ کر رہے ہیں،سب ججز متفق ہیں کہ یہ عوامی مفاد کا کیس ہے۔

جسٹس عمر عطا نے مزید کہا  ہم حکومت کی تجاویز سے متفق نہیں ہیں،ملازمین کی بھرتی کے طریقہ کار پر عمل کرنا ضروری ہے،سپریم کورٹ گزشتہ 30 برسوں میں میرٹ اور شفاف بھرتیوں پر کئی فیصلے دے چکی ہے،جسٹس جواد ایس خواجہ نے اوگر کیس میں ایک بہترین فیصلہ دیا تھا،آئین و قانون کے مطابق طریقہ کار پر عمل ضروری ہے،حکومت نے اپنی تجاویز میں تسلیم کیا کہ قواعد کو مدنظر نہیں رکھا گیا،ہمیں تضادات میں نہیں پڑنا چاہیے،ان لوگوں کو جب نکالا گیا انکے حقوق متاثر ہوئے،ملازمین کی بھرتی کے وقت بھی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہوئی،برطرف ملازمین سے ہمدردی ہے مگر عدالت نے آئین و قانون کو دیکھنا ہے،سہولت بھی دینا ہوگی تو آئین کے مطابق دیں گے،حکومتی تجاویز کے نہیں آئین کے مطابق چلیں گے۔

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو سیکڈ ایمپلائز ایکٹ پر دلائل دینے کا ایک اور موقع دے دیا اور بینچ کے سربراہ نے کہا مسٹر اٹارنی جنرل اپنے دماغ میں یہ بات رکھیں کہ موجودہ کیس کا رنگ بدل چکا ہے،موجودہ کیس ہے نظر ثانی کا لیکن ہم نے نئے سرے سے قانون کی تشریح شروع کی،ملازمین کے کیس میں بڑی تعداد میں لوگ متاثر ہوئے،آرٹیکل 184/3 کا اچھا کیس تھا،لیکن مرکزی کیس میں اس کا اطلاق ہو چکا ہے،اٹارنی جنرل صاحب تجاویز جانیں اور ملازمین جانیں۔یقینی بنائیں گے کہ کوئی چور دروزاے سے سرکاری ملازمت میں داخل نا ہو سکے، گزشتہ روز اٹارنی جنرل نے وزیراعظم سے ہدایات لے کر سپریم کورٹ کو آگاہ کیا، اٹارنی جنرل کی طرف سے عدالت کو بتایا گیا کہ وزیراعظم نے برطرف سرکاری ملازمین سے متعلق تین ہدایات دی ہیں،

خالد منصور خان کی طر سے کہا گیاکہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ گریڈ ایک سے 7 کے ملازمین کو بحال کیا جائے،وزیراعظم نے کہا کہ8 سے17 گریڈ کے ملازمین کا ایف پی ایس سی ٹیسٹ لیا جائیگا، فیڈرل پبلک سروس کمیشن 3 ماہ میں ملازمین کے ٹیسٹ کا عمل مکمل کرے گا۔

اٹارنی جنرل کے مطابق جو ملازمین ٹیسٹ پاس کریں گے انہیں مستقل کردیا جائے گا،ٹیسٹ کلیئر ہونے تک ملازمین ایڈہاک تصور ہوں گے،

خالد منصور خان کے مطابق عدالت نے ایکٹ کالعدم قراردیا تھا جس کے متاثرہ ملازمین کی تعداد 5947 ہے،وزیراعظم نے تجویزدی ہے کہ نکالے گئے ملازمین متعلقہ عدالتوں سے رجوع کرسکتے ہیں،وزیراعظم نے گریڈ ایک سے 7 والے ملازمین کو فوری بحال کرنے کا حکم دیا ہے،جو ملازمین ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد مستقل ہوں گے ان کی پینشن کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا،

اٹارنی جنرل پاکستان کی طرف سے بتایا گیا کہ برطرف ہونے والے ملازمین کا تعلق 38 مختلف وفاقی اداروں سے ہے،برطرف ہونے والوں میں 3789 ملازمین سول سرونٹ نہیں کہلاتے۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جو ملازمین بحال ہوتے ہی پنشن لے رہے ہیں انہیں مزید پنشن نہیں ملے گی،ملازمین کو جو رقم دی جا چکی وہ ریکور نہیں کی جائے گی،

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا حکومت کی تجاویز پر غور کرینگے، اس پہلو سے دیکھا جائے گا کہ تجاویز سے عدالتی فیصلہ متاثر تو نہیں ہوگا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تجاویز پر غور کرکے کل اپنی رائے دینگے۔

اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ ملازمین پریشان ہیں گریڈ 1 سے 7 کیلئے آج ہی حکم جاری کر دیں،

جسٹس قاضی امین نے کہا اٹارنی جنرل صاحب اتنی جلدی نہ کریں ہمیں غور کرنے دیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ حکومتی اقدامات میں شفافیت ہونی چاہیے

 وکیل پی ایس او فیصل صدیقی  نے کہا عدالت قانون کالعدم قرار دیتے ہوئے بھی ملازمین کو تحفظ دے سکتی ہے،معلوم ہے عدالت مستقبل کیلئے کوئی غیرمناسب اصول وضع نہیں کرے گی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کرپشن پر نکالے گئے ملازمین کو پارلیمنٹ کیسے بحال کر سکتی ہے؟بحالی کے قانون میں کرپشن پر نکالے گئے ملازمین کو تحفظ حاصل نہیں تھا۔
جسٹس قاضی امین نے کہا سپریم کورٹ نے کسی ملازم کو برطرف کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔عدالت نے ماضی کے اصولوں پر چلتے ہوئے قانون کالعدم قرار دیا تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا جمہوری نظام میں قانون سازی پارلیمنٹ کے ذریعے ہوتی ہے، پارلیمنٹ سپریم ہے، آرڈیننس کا دائرہ محدود ہوتا ہے، انتہائی ضروری حالات میں فوری ضرورت کے تحت ہی آرڈیننس آسکتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے وزیراعظم سے ہدایات لے کر سپریم کورٹ کو آگاہ کیا، اٹارنی جنرل کی طرف سے عدالت کو بتایا گیا کہ وزیراعظم نے برطرف سرکاری ملازمین سے متعلق تین ہدایات دی ہیں،

خالد منصور خان کی طر سے کہا گیاکہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ گریڈ ایک سے 7 کے ملازمین کو بحال کیا جائے،وزیراعظم نے کہا کہ8 سے17 گریڈ کے ملازمین کا ایف پی ایس سی ٹیسٹ لیا جائیگا، فیڈرل پبلک سروس کمیشن 3 ماہ میں ملازمین کے ٹیسٹ کا عمل مکمل کرے گا۔

اٹارنی جنرل کے مطابق جو ملازمین ٹیسٹ پاس کریں گے انہیں مستقل کردیا جائے گا،ٹیسٹ کلیئر ہونے تک ملازمین ایڈہاک تصور ہوں گے،

خالد منصور خان کے مطابق عدالت نے ایکٹ کالعدم قراردیا تھا جس کے متاثرہ ملازمین کی تعداد 5947 ہے،وزیراعظم نے تجویزدی ہے کہ نکالے گئے ملازمین متعلقہ عدالتوں سے رجوع کرسکتے ہیں،وزیراعظم نے گریڈ ایک سے 7 والے ملازمین کو فوری بحال کرنے کا حکم دیا ہے،جو ملازمین ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد مستقل ہوں گے ان کی پینشن کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا.

اٹارنی جنرل پاکستان کی طرف سے بتایا گیا کہ برطرف ہونے والے ملازمین کا تعلق 38 مختلف وفاقی اداروں سے ہے،برطرف ہونے والوں میں 3789 ملازمین سول سرونٹ نہیں کہلاتے۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جو ملازمین بحال ہوتے ہی پنشن لے رہے ہیں انہیں مزید پنشن نہیں ملے گی،ملازمین کو جو رقم دی جا چکی وہ ریکور نہیں کی جائے گی،

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا حکومت کی تجاویز پر غور کرینگے، اس پہلو سے دیکھا جائے گا کہ تجاویز سے عدالتی فیصلہ متاثر تو نہیں ہوگا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تجاویز پر غور کرکے کل اپنی رائے دینگے۔

اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ ملازمین پریشان ہیں گریڈ 1 سے 7 کیلئے آج ہی حکم جاری کر دیں،

جسٹس قاضی امین نے کہا اٹارنی جنرل صاحب اتنی جلدی نہ کریں ہمیں غور کرنے دیں۔

کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ۔ سپریم کورٹ کی طرف سے کہا گیا کہ کل کیس کو نمٹا دیا جائیگا۔

About The Author