گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیرہ اسماعیل خان شھر کو شروع میں جن بزرگوں نے تعمیر کیا تھا وہ بہت بڑی بصیرت رکھتے تھے۔ شھر کے درمیان میں چوگلہ بنایا گیا جھاں ایک بڑی مسجد تعمیر کی گئ اور شھر کے چار بڑے بازار چوگلہ سے ملا دیئے گئے۔ شھر کے ارد گرد 8فٹ اونچی ایک فصیل تھی جو اب نہیں ھے اور شھر میں داخلے کے لئے چاروں طرف گیٹ تھے۔ فصیل اور قلعے پرانے زمانے کی سیکورٹی کا حصہ تھے جن کی اب ضرورت نہیں رہی۔ تجارت گنج جو ٹانک اڈہ کے اندرونی دروازے کے اندر ھے یہاں پر افغانستان اور سنٹرل ایشیا کے تاجر مال بیچتے تھے۔اس سے ملحقہ بازار کا نام پاوندہ بازار افغانوں سے تجارت کی یادگار ھے۔ توپانوالہ گیٹ پر توپ رکھی گئی تھی جو اب نہیں ھے۔ فقیرنی گیٹ۔علی زئ گیٹ۔توپانوالہ گیٹ۔صدر بازار امامیہ گیٹ۔کنیرانوالہ اور اسلامیہ سکول نظام خان گیٹ۔لغاری و مسگراں بازار گیٹ۔ سب پرانی فصیل سے داخلی راستے تھے۔دلچسپ بات یہ ھے کہ ابھی کاریں ۔ٹرک ایجاد نہیں ہوۓ تھے مگر بازار کافی کھلا تھا۔ ہمارے پیارے پیغمبر محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی مدینہ کی گلیوں بازاروں کی تعمیر پر حکم دے رکھا تھا کہ بازار اتنا کھلا ھو کہ اس سے دو لدے ہوۓ اونٹ کھلے طریقے سے ایک ساتھ گزر سکیں ۔یہی وجہ ھے آجکل بھی مدینہ منورہ کے بازار بھت کشادہ اور گلیاں بھی بھت خوبصورت چلی آرہی ہیں۔اللہ ہم سب کو مدینہ کی زیارت کروائے آمین۔
ڈیرہ شھر کی فصیل کی اندرونی سائڈ پر سبزی کاشت کرنے کے کھیت تھے اور فصیل کے باہر چاروں طرف ایک دائرے کی شکل میں پارک اور پھولوں کے باغات تھے جس کی وجہ سے شھر خوشبو میں مہکتا رہتا تھا اور لوگ اسے پھلاں دا سہرا کہنے لگے۔ سیورج کا نظام بھی اس وقت کی آبادی کے حساب سے بہترین تھا۔اور ابھی پلاسٹک کے لفافے بھی ایجاد نہیں ھوۓ تھے۔۔یہ ایک پرسکون خوبصورت شھر تھا۔
پچھلے 74 سالوں میں پاکستان کے وسائل صرف کیپیٹل سٹیز capital cities پر خرچ کیے گیے اور دور دراز کے شھروں کو نظر انداز کیا گیا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔کوئی چیز بنائی تو وہ بھی بے دلی سے بنائی آدھا تیتر آدھا بٹیر۔ صورت حال یہ ہے کہ ڈیرہ شھر میں میڈیکل کالج ۔دو بڑے ہسپتال ہونے کے باوجود روزانہ مریض پشاور۔اسلام آباد ۔ملتان بھیجے جاتے ہیں۔ ڈیرہ ایک زرعی ضلع ہے مگر چاول صاف کرنے ۔کپاس وغیرہ کا کارخانہ تک نہیں ۔ ہماری پیداوار اونے پونے خرید کے باہر جاتی ہے اور واپس ڈبل قیمت پر ہمیں ملتی ہے۔ خیر ہمارے عوام کے پیٹ قسم قسم کے نعروں اور وعدوں سے بھرے جاتے ہیں اور عوام زندہ باد زندہ باد کہتے نہیں تھکتے۔پاکستان اور ہمارا شھر 74 سال کا بوڑھا ہو گیا مگر چکی کی مشقت جاری ہے۔ ۔علامہ اقبال نے کہا تھا ؎
بدل کے بھیس پھر آتے ہیں ہر زمانے میں۔۔
اگرچہ پیر ہے آدم جواں ہیں لات و منات۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر