محمود جان بابر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افغانستان میں رواں سال 15 اگست کو امریکہ اور افغان حکومت کے نکلنے کے بعد صورتحال اور برسراقتدار گروہ میں تبدیلی آئی تو ہم بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے وہاں پر تبدیلی کے اس عمل کو خود دیکھا۔ وہاں سے واپسی پر جس چیز نے پاکستان میں ہمارا سب سے زیادہ بے تابی کے ساتھ استقبال کیا وہ وہاں کے حالات کے بارے میں مقامی لوگوں میں پایا جانے والا اضطراب تھا۔ کئی دن تک مختلف جگہوں پر ہونے والے عوامی مذاکروں اور ٹی وی و ریڈیو پروگراموں میں یہی ایک موضوع چھایا رہا۔
خیال تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی ان باتوں میں دلچسپی کم ہوتی جائے گی لیکن جیسے افغانستان میں وہاں بننے والی حکومت کو ابھی تک دنیا میں کسی نے تسلیم نہیں کیا اور چار ماہ گزرنے کے باوجود بھی جس طرح معاملات جامد و ساکت ہیں اسی طرح ان میں پائی جانے والی لوگوں کی دلچسپی اور مستقبل کے حوالے سے ان کے دلوں میں پائے جانے والے خدشات بھی زندہ ہیں۔ ہم جو سمجھے تھے کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ موضوع پرانا ہو جائے گا اور لوگ اسے بھول کر کچھ اور کرنے لگ جائیں گے لیکن وہاں کی باتیں اور ان کے ارد گرد کے موضوعات اب بھی ہمارا پیچھا کر رہے ہیں۔
پاکستان میں لوگوں کو افغانستان کے بدلتے حالات اور دنیا میں بدلتی منصوبہ بندیوں کی بڑی فکر ہے۔ عام لوگوں کو اس بات پر بڑی تشویش ہے کہ افغانستان میں حالات کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ کیوں نہیں رہا ان لوگوں میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ اور نوجوان شامل ہیں۔ یہ سب یہ جاننا چاہتے ہیں کہ افغانستان میں کیا ہونے جا رہا ہے اور دنیا اب وہاں سے کیا چاہتی ہے؟
ستمبر میں افغانستان سے واپسی کے بعد پشاور میں انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز کے زیرانتظام جب شہر کے معززین یونیورسٹی کے اساتذہ اور عام لوگوں کو معلومات کی فراہمی کا جو سیشن منعقد ہوا ان میں سب سے بڑی تعداد نوجوانوں کی تھی جنہیں یہ فکر لاحق تھی کہ اب جبکہ افغانستان اچانک طالبان کے پلے بندھ چکا ہے تو اب کیا ہو گا؟ اور اب جوں جوں دن گزرتے جا رہے ہیں تو پاکستان میں عام لوگوں اور نوجوانوں میں مسلسل اضطراب پھیل رہا ہے کہ آخر مسئلہ کیا ہے افغانستان سے کوئی اچھی خبر اور استحکام کا کوئی پیغام کیوں نہیں آ رہا؟
15 اگست سے ہوتے ہوتے بات 15 دسمبر تک پہنچ گئی ہے لیکن افغانستان کے چند انتہائی اہم بنیادی مسائل حل نہیں ہو سکے جن میں طالبان کو بطور حکومت تسلیم کر کے دنیا کی جانب سے ان کے ساتھ باضابطہ سفارتی تعلقات کی بحالی شامل ہے، افغانستان کے روکے گئے اربوں ڈالرز کے فنڈز کا اجرا اور وہاں پر قریبا ڈھائی کروڑ لوگوں کو درپیش خوراک کی کمی کا سر پر منڈلاتا خطرہ و ہسپتالوں میں علاج کی کمیاب ہوتی سہولتوں کو پورا کرنے جیسے مسائل اب بھی زیربحث ہیں۔
ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کشمکش ابھی جاری ہے چند روز قبل اسلام آباد میں قائم بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ایک طالب علم کی کال موصول ہوئی جن کے مطابق وہ چاہتے تھے کہ میں افغانستان کے حوالے سے دستیاب معلومات لے کر ان کے پاس حاضر ہوں اور انہیں حالات پر ایک لیکچر یا بریفنگ دوں۔ اس لیکچر کے لئے جمعرات کا دن مقرر ہوا میں اپنے دوست افتخار خان کے ہمراہ پشاور سے اسلام آباد پہنچا لیکچر شروع ہونے سے پہلے خدشات لاحق تھے کہ اسلام آباد میں طلبہ آخر کیوں اس خشک اور بور موضوع پر کوئی لیکچر سننا چاہیں گے؟ خیال تھا کہ منتظمین جو کہ طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ تھے کو ہال میں بٹھانے کے لئے شاید ہی لوگ ملیں اور اگر ہوں گے بھی تو وہ اس خشک موضوع پر بات شروع ہوتے ہی آہستہ آہستہ سرک جائیں گے۔
انہی سوچوں کے دوران یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں پہنچے تو ہال میں قریبا تمام کرسیاں پہلے سے ہی بھری ہوئی تھیں اور جیسے ہی پروگرام کا آغاز ہوا تو مزید طلبہ بھی ہال میں آئے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طلبہ نے ہمارے دل میں موجود خدشات کو غلط ثابت کیا وہ سب اپنی جگہ جمے بیٹھے رہے اور پوری تندہی سے ہر مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہے۔
میں ان کو افغانستان میں اب تک کی تاریخ کے کچھ حوالے بتا کر دراصل یہ ثابت کرنا چاہ رہا تھا کہ افغانستان کی جغرافیائی اہمیت اور روس و برطانوی ہندوستان کے بیچ بفر زون کے طور پر اس کی موجودگی اس کے اب تک کی بہت سی مشکلات کی وجہ ہے اور یہ جو گزشتہ کچھ دہائیوں سے ہمیں افغانستان میں مسلسل جنگیں دیکھنے کو مل رہی ہیں یہ وہاں کے لئے کوئی نئی بات نہیں اور یہ سلسلہ 1839 سے شروع ہوا تھا۔
ہم نے ان طلبہ کو بتایا کہ جب تک دنیا افغانستان میں طالبان کی اس حکومت کو تسلیم نہیں کرتی جو امریکہ کے ساتھ ایک باضابطہ معاہدے کے بعد اور اس کی جانب سے طالبان کے لئے افغانستان کو خالی چھوڑنے کے بعد وجود میں آئی تھی تو اس وقت تک افغانستان کے بڑے مسائل حل نہیں ہوسکتے اور جب تک یہی امریکہ افغانستان کے کئی ارب ڈالرز کے فنڈ انہیں دے نہیں دیتا تو افغانستان میں مشکلات کسی صورت کم نہیں ہوں گیں اور وہاں پر سردی کے موسم میں کم ازکم سوا دو کروڑ لوگوں کے شدید خوراکی بحران سے متاثر ہونے کا سنگین خطرہ کسی صورت ٹالا نہیں جاسکتا۔ امریکہ کے جانے کے بعد افغانستان کے قریبا ڈھائی ہزار ہسپتالوں اور دیگر مراکز صحت کو اگر ماضی قریب کی طرز پر عالمی بنک، یو ایس ایڈ اور یورپی یونین کے فنڈز سے ادویات اور آلات فراہمی کا سلسلہ دوبارہ شروع نہیں کیا جاتا تو لوگوں کے صحت کے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔
انہیں یہ بھی بتایا کہ اگر امریکہ اور چین جیسی عالمی طاقتوں نے افغان حکومت کو تسلیم کرنے کے اپنے اعصابی جنگ کو جیتنے کے چکر میں اس عمل کو مزید طول دیا تو خدشہ ہے کہ عام افغان مایوس ہو کر طالبان کے ساتھ لڑ پڑیں اور انارکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنگی گروہ پھر سر اٹھا لیں اور پھر کھیل کسی کے ہاتھ نہ رہے۔ کسے نہیں معلوم کہ امریکہ دوحہ معاہدہ پر عمل نہ کرنے کے نام پر طالبان کو مزید ٹف ٹائم دیتا رہے اور ایسے میں صورتحال بگڑنے کی بدولت خطے میں چین اور روس کے مفادات کو شدید زک پہنچنے کا خطرہ درپیش ہو جس سے نمٹنے کے لئے ان دونوں بڑی قوتوں کی جانب سے کسی سٹیج پر اچانک طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا کام کیا جاسکتا ہے جس میں پاکستان اور دنیا کے چند اور ممالک ان کا ساتھ دے سکتے ہیں تاہم فی الوقت کوئی بھی ملک اکیلے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا کام سرانجام دینے کو تیار نظر نہیں آ رہا۔
لیکچر کے دوران اشرف غنی اور طالبان کے ادوار کا تقابلی جائزہ بھی پیش کیا گیا آخر میں طلبہ نے جس انداز میں موضوع کے بارے میں سوالات کیے اس نے ہمارے دل میں ان کے حوالے سے موجود تمام خدشات کو ختم کر دیا کہ وہ کسی دباؤ میں اس خشک موضوع کو سننے کے لئے ہال میں موجود ہوں۔ ان کے سوالوں سے پتہ چلا کہ انہیں اس موضوع میں دلچسپی تھی اور وہ اس معاملے پر دنیا، خطے اور خود افغانستان کے اندر کی سیاست کو سمجھنا چاہ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
افغانستان، جنگ کے پلٹتے سائے۔۔۔ محمود جان بابر
کانچ کا وجود اور پتھر سے دشمنی۔۔۔ محمود جان بابر
پاکستان میں افغانوں کے چالیس سال ۔۔۔ محمود جان بابر
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر