وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس برس اکبر الہ آبادی کی وفات پر ایک صدی گزر گئی۔ 1846 میں پیدا ہونے والے اکبر الہ آبادی نے 1857 ء کا ہنگامہ بھی مشاہدہ کیا اور پہلی عالمی جنگ بھی دیکھی۔ اکبر اردو ادب میں قدامت پسندی کی اولین آوازوں میں سے تھے۔ سرسید، علی گڑھ تحریک اور آزادی نسواں کے سخت مخالف تھے۔ بدیشی علوم اور ثقافت پر تنقید کے لئے طنزیہ علامتیں تراش رکھی تھیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خود اکبر نے سرکاری مدارس سے تعلیم پائی۔ محکمہ تعمیرات میں ملازمت کی، نائب تحصیلدار ہوئے۔ برسوں وکالت کرتے رہے۔ عدالت خفیفہ کے جج ہوئے۔ خان بہادر کا خطاب پایا۔ صاحبزادے کو تعلیم کے لئے برطانیہ بھیجا۔ اکبر الہ آبادی کی شخصیت کے ان متنوع زاویوں سے ہماری اجتماعی نفسیات کی کئی پرتیں کھلتی ہیں۔ ہم نے آزادی سے بھی پہلے اپنے لئے Exceptionalism (ترکیب خاص) کا راستہ چنا تھا۔ تاریخ میں بہت سی قوموں نے Exceptionalism کا تشخص اپنانا چاہا، کسی کو کامیابی نہیں مل سکی۔
اپنے وطن سے محبت ایک جائز جذبہ ہے لیکن اپنے وطن کو عالمی اصول ضابطوں نیز علمی اور تمدنی ارتقا سے ماورا خیال کرنا درست نہیں۔ ایسی قوم اپنے عہد کے سیاسی اور معاشی تقاضے پورے نہیں کر سکتی۔ ایک سادہ سا اصول ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اور نئے معاشی ذرائع کی تبلیغ نہیں کی جاتی، انسانی سعی کے یہ مظاہر اپنی افادیت کے بل پر ہماری زندگیوں کا حصہ بنتے ہیں۔ افادیت کی اصطلاح وسیع مفہوم لئے ہوئے ہے۔
انسان محض چپاتی کے ٹکڑے یا چاول کی پیالی پر بسراوقات نہیں کر سکتا۔ زندگی کو معنویت دینے کے لئے فنون عالیہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ موسیقی، رقص، مصوری، شعر سے لے کر مجسمے تک تمام فنون کا بنیادی منصب وجود کا اثبات اور ارتفاع ہے۔ آج مجسمہ سازی پر کچھ بات کرنا ہے۔ لیکن یونان کے آثار، اٹلی کی گیلریوں اور ایلورا اجنتا کی سیر مقصود نہیں۔ ہمیں تو اپنے زوال کے شہر آشوب سے غرض ہے۔
وہاڑی سے خبر آئی ہے کہ ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں نصب بابائے قوم کے مجسمے سے عینک چوری کر لی گئی ہے۔ کمشنر ملتان کو رپورٹ بھیجی گئی ہے کہ نامعلوم چور دھند اور اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قائد اعظم کی یک چشمی عینک لے اڑے۔ جاننا چاہیے کہ اس چوری کا تعلق بصارت سے نہیں، بصیرت سے ہے۔ دھند ہمارے دماغوں میں ہے اور اندھیرا ہمارے راستوں میں پھیلا ہے۔
ایک عرصے سے ہم بت اور مجسمے میں امتیاز بھول چکے ہیں۔ مجسمہ ہیئت کا تخلیقی اظہار ہے۔ اگر کوئی اس میں تقدیس کا رنگ دیکھنا چاہے تو یہ عقیدے کی آزادی کا سوال ہے، اعتراض کیسا؟ باقیوں کے لئے مجسمہ محض حسن اور تمدنی تسلسل کا نشان ہے۔ ہمارے ہاں بت شکنی پر فخر کی روایت تو پرانی ہے لیکن حالیہ عرصے میں اس کے ڈانڈے مارچ 2001 سے ملتے ہیں جب افغان طالبان نے بامیان میں مہاتما بدھ کے بلند ترین مجسمے مسمار کیے۔ 2018 کے ابتدائی مہینوں میں قصور کی بچی زینب کا سانحہ سامنے آیا تو ایک تخلیق کار نے اس شیطانیت کو مجسمے کا روپ دے کر لاہور عجائب گھر کے احاطے میں نصب کر دیا۔
اس پر ایک خاتون وکیل عدالت جا پہنچیں اور یہ مجسمہ ہٹانا پڑا۔ جون 2019 میں رنجیت سنگھ کا مجسمہ شاہی قلعہ لاہور میں نصب کیا گیا۔ اب تک اسے تین مرتبہ توڑا جا چکا ہے۔ ڈسکہ کے کالج چوک میں کتابیں اٹھائے کھڑی ایک ننھی بچی کا مجسمہ تھا جس کے سر پر استاد کا شفیق ہاتھ تھا۔ رواں برس یہ مجسمہ تباہ کر دیا گیا اور ایسا کرنے والوں کی شناخت بوجوہ بتائی نہیں جا سکتی۔
اس برس جولائی میں بہاولپور میں فلائنگ ہارس سمیع اللہ کے مجسمے سے گیند اور ہاکی چوری کی گئی بلکہ ناقابل اشاعت حرکتیں بھی کی گئیں۔ دو نکات عرض کرنا ضروری ہیں، یہ چوری کے واقعات نہیں، ان کا ایک مخصوص سیاسی تناظر ہے۔ اہل پاکستان کو شاید یاد نہ رہا ہو کہ جنوری 1948 میں کراچی کے فسادات کے دوران قائد اعظم نے انتظامیہ کو ہدایت کی تھی کہ مہاتما گاندھی کا مجسمہ محفوظ جگہ پر منتقل کر دیا جائے مبادا بلوائی اسے نقصان پہنچائیں۔ قائد کو یقیناً علم نہیں تھا کہ ایک دن اس ملک میں خود ان کا اپنا مجسمہ بھی محفوظ نہیں ہو گا۔
قائد کے مجسمے ہی پر کیا موقوف، ہم نے قائد کا آدھا پاکستان چوری کر لیا اور اس واردات کا تذکرہ بھی ناگوار سمجھتے ہیں۔ ہم نے قائد کی بہترین تقریر چوری کر لی اور اس کی جگہ ایک جعلی ڈائری رکھ دی۔ ہم نے اہل پاکستان کے لئے قائد کا مساوی شہریت کا خواب چوری کر لیا اور عقیدے، ثقافت اور زبان کی بنیاد پر شہریوں میں درجہ بندی کر دی۔ ہم نے قائد کا جمہوری پاکستان کا خواب چوری کیا اور پارلیمان کی عمارت میں قائد کی قد آدم تصویر کے عین نیچے آمروں کی تقریریں سن کر تالیاں بجاتے رہے۔
ہم نے قائد کے پاکستان میں درس گاہوں سے تعلیم چوری کر لی اور تلقین کے کتبے نصب کر دیے۔ ہم نے زندگی بھر صحافت کی آزادی کے لئے لڑائی لڑنے والے قائد کے دیس میں صحافی کا قلم اغوا کر لیا اور زبان پر مہر لگا دی۔ ہم نے دستوری سیاست میں یقین رکھنے والے قائد کے دیے ہوئے دیس میں دستور کی بالادستی کے لئے اٹھنے والی ہر آواز کو افترا پردازی قرار دیا۔ ہم نے دھند کی آڑ میں دستور تحلیل کیے اور اندھیرے کی اوٹ میں عوام کا حق حکمرانی چوری کیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ وہاڑی کے ڈپٹی کمشنر صاحب نے قائد اعظم کے مجسمے کو نئی عینک لگوا دی ہے اور متعلقہ مقام پر سی سی ٹی وی کیمروں کی تعداد بڑھائی جا رہی ہے۔
عرض ہے کہ قائد اعظم کی عینک ہی چوری نہیں ہوئی، ان کے ورثے کے انتہائی بیش قیمت اثاثے چوری ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ سرقے کی ان وارداتوں پر نظر رکھنے کے لئے سی سی ٹی وی کیمرے لگانا کافی نہیں، اس ملک کے ہر شہری کے دماغ میں قائد کے جمہوری شعور کا چراغ روشن کرنا ہو گا۔
بشکریہ : ہم سب
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر