عزیز سنگھور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکران کی ساحلی پٹی پر عوام کے احتجاج اور دھرنوں کے ایک تسلسل نے نہ صرف اسلام آباد بلکہ بیجنگ کی سرکار کے بھی ہوش اڑادیئے ہیں۔ بیجنگ کے حکمرانوں نے پہلی بار بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر غلط بیانی کا سہارہ لیا ۔ چینی وزیرخارجہ کے ترجمان کے مطابق گوادر میں چائنیز ٹرالنگ کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کیا گیا۔چینی حکام بلوچستان کے سمندر میں چائنیز ٹرالرز کی موجودگی سے مکر گئے۔ چینی حکام کے اس سفید جھوٹ سے ان کی کمزور پوزیشن نظر آگئی ہے۔ اس بیان سے ان کی نیت اور ذہینت بھی واضع ہوگئی۔ پورے بلوچستان کی ساحلی پٹی پر بے شمار چینی جہازوں کی ویڈیوز وائرل ہوئی تھیں۔جہازوں کو بے دریغ سمندری حیات کی نسل کشی کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ جھوٹ بھی ایسا بولو کے لوگ یقین کرسکیں۔ دن کی روشنی میں چینی جہاز بلوچستان کی سمندری حدود میں مچھلی پکڑتے نظر آئے تھے۔ چینی ٹرالرز کی موجودگی کے خلاف سب سے پہلے نیشنل پارٹی نے گوادر میں احتجاج کیا۔ جس پر ضلعی اتنظامیہ نے لاٹھی چارج اور شیلنگ کی ۔ کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جس کے بعد فشریز حکام بھی حرکت میں آگئے اور چین کے تین ٹرالرز کو تحویل میں لے لیا۔
ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ چین نے بلوچوں کو غداری کے سرٹیفکیٹ بھی جاری کیئے۔ 2018 میں پاکستان میں چین کے سفیر یاؤ ژینگ نے بی بی سی کو ایک خصوصی انٹرویوں میں کہا تھا کہ بلوچ حقیقی پاکستانی نہیں ہیں۔ ’اگر وہ حقیقی پاکستانی ہوتے تو وہ پاکستان کے قومی مفاد میں سوچتے۔‘
چین کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ بلوچوں کو پاکستانی یا غیر پاکستانی قراردیں۔ اگر پاکستانی ہونے کے سرٹیفکیٹ بیجنگ سرکار جاری کرتی ہے تواس سرٹیفکیٹ کی بلوچوں کو ضرورت نہیں ہے۔ چینی اپنے سرٹیفکیٹ اپنے پاس رکھیں۔ بلوچ جس سرزمین پر رہتے ہیں اسے بلوچستان کہا جاتا ہے۔ بلوچوں کو بلوچستان کی سرزمین پر فخر ہے۔ اور وہی ان کی شناخت اور پہچان ہے۔ بلوچ معاشرہ ایک تہذیب یافتہ معاشرہ ہے۔ اس معاشرے نے تہذیب جنم دی۔۔ جسے ’’ مہرگڑھ ‘‘ کہا جاتا ہے۔ مہرگڑھ آٹھ ہزار سال قبل مسیح پرانی تہذیب ہے۔ یہ جنوبی ایشیا کا پہلا علاقہ ہے جہاں گندم اور جو کی پہلی بار کاشت کی گئی۔ مویشیوں کو پالنے سے متعلق پتہ چلتا ہے۔ جوں جوں شہر میں علوم و فنون کو ترقی ملی، مہرگڑھ کے مکین رنگسازی اور دیگردھاتوں سے جدید آلات و اوزار بنانے لگے۔ چونکہ شہر درہ بولان جیسی اہم گذرگاہ پر واقع تھا۔ یہاں افغانستان،ایران اور چین سے آنے جانے والے قافلے بھی قیام کرنے لگے۔ مہرگڑھ میں دس تا بیس ہزار کے مابین انسان آباد تھے۔ یہ اس زمانے کے لحاظ سے بہت بڑی تعداد تھی کیونکہ اس وقت پورے برصغیر میں انسانی آبادی صرف دو لاکھ تھی۔
چینی سامراج کو ہوش کے ناخن لینے اور بلوچوں کی تاریخ پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ بلوچوں نے پرتگیز سامراج کے خلاف مسلح جدوجہد کرتے ہوئے اپنے ساحل اور وسائل پر حکمرانی قائم و دائم رکھی۔ پرتگیزیوں کو صرف بلوچ سرزمین پر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جہاں میرھمل کلمتی حاکم تھا۔ پرتگیزی جنوبی امریکہ، افریقہ، ہندوستان اور جنوب مشرقی ایشاء پر قابض ہونے کے بعد جب بلوچستان کے ساحل پر حملہ آور ہوئے تو میرھمل کلمتی نے انہیں پسپا کیا۔
گوادر کے دھرنے نے چینی حکام کے ہوش اڑادیئے ہیں۔ گوادر کے دھرنے کو “گوادر کو حق دو تحریک” کا نام دیا گیا تھا ۔بعد میں اس کا نام تبدیل کرکے “بلوچستان کو حق دو تحریک” رکھ دیا گیا۔
گوادر دھرنے کی حمایت اور مطالبات پر عمل درآمد کرانے کے لئے خواتین کی بڑی تعداد نے احتجاج کرتے ہوئے ریلی نکالی۔ اس ریلی میں خواتین نے مختلف پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر لاپتہ افراد کی بازیابی، سمندر کو ٹرالرنگ سے پاک اور سیکیورٹی چیک پوسٹوں پر عوامی تذلیل سمیت سرحدی کاروبار پر بندش کے خلاف نعرے درج تھے ۔ خواتین کی اتنی بڑی تعداد میں ریلی میں شرکت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ بلوچ ایک ترقی پسند معاشرہ ہے۔ جہاں عورت کو ہر طرح کے حقوق حاصل ہیں۔ بلوچ معاشرے میں خواتین کو ایک رتبہ حاصل ہے۔ کیونکہ بلوچ جانتے ہیں کہ آدھی آبادی کو گھر میں قید کرنا معاشرے کو جہالت کی طرف دھکیل دینے کے مترادف ہوگا۔ اس وقت بلوچ تحریک میں خواتین کا اہم کردار ہے۔ خواتین کو سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر حقوق دیئے بغیر کوئی بھی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔
بلوچ بزرگ رہنما یوسف مستی خان نے بلوچستان کو حق دو تحریک کے دھرنے میں اپنے خطاب میں کہا کہ بلوچ اگر ”را“ کے ایجنٹ ہیں تو ہمارے حکمران بھی امریکا کے ایجنٹ ہیں۔ حکومت نے ان کی تقریر کو ریاست مخالف قراردے کر انہیں گرفتار کرلیا جبکہ بلوچستان کو حق دو تحریک کے بانی مولانا ہدایت الرحمان کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا۔
بلوچوں کو حب وطنی کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ بلوچ آدم خور اور کتا خور قوم نہیں ہے۔ آج گوادر میں کتے نایاب ہوگئے ہیں۔ تو اس میں بلوچوں کا قصور نہیں ہے۔ کیونکہ بلوچ کتے نہیں کھاتے ہیں۔ کسی زمانے میں گوادر میں بلدیہ سے کتے مار مہم شروع کرنے کے مطالبہ ہوتا تھا۔ اب اس مہم کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کتے کہاں جارہے ہیں۔؟۔ کون لے جارہا ہے؟۔ بلوچوں کو ان سوالات کے جواب چاہیئے۔ نہ کہ چینی سرکار کی جاری کردہ سرٹیفکیٹ کی ۔ پہلے سے بلوچوں کو اسلام آباد کی سرکار نے بھارتی ایجنٹ کا سرٹیفکیٹ جاری کیا ہوا ہے۔ حالانکہ بھارت کے ساتھ واہگہ بارڈر پر آپ تجارت کررہے ہیں۔ آپ کا آنا جانا ہوتا ہے۔ خونی رشتہ کے دعویدار آپ ہیں۔ آج بھی لاہور میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کا مجسمہ نصب ہے۔ جس پر وہ فخر کرتے ہیں اور اپنا ہیروں مانتے ہیں۔ کرتارپور کا بارڈر آپ نے کھولا ہے۔ بلوچوں کا بھارت سے نہ خونی رشتہ ہے اور نہ ہی بلوچستان کا کوئی بارڈر بھارت سے لگتا ہے۔ اگر بارڈر لگتا ہے تو ایران کا لگتا ہے۔ جس پر آپ نے باڑ لگا کر تجارت پر سختیاں عائد کر رکھی ہیں۔ ویسے بھی بلوچستان کے ایران سے متصل اضلاع میں نہ صنعتیں ہیں اور نہ ہی زراعت، جس سے لوگوں کا روزگار وابستہ ہو۔ یہاں پر کاروبار کا واحد ذریعہ صرف ایرانی اشیا اور تیل ہے۔ دوسری جانب چینی اور کراچی کے ٹرالرز کو بلوچستان کی سمندری حدود میں مچھلی کی غیر قانونی اجازت دے کر سمندر کو بانجھ بنادیا ہے۔ جس کی وجہ سے بلوچ ماہی گیر نان و شبینہ سے محتاج ہوگئے ہیں۔ چینی باشندوں نے پنجاب میں غریب لڑکیوں کو شادی کا جھانسہ دے کر چین کے ریڈ لائٹ ایریاز کا زینت بنادیا ہے۔ ان کے جسمانی اعضا فروخت کردیئے گئے۔ چینی باشندے پاکستان میں اے ٹی ایم چوری میں بھی پکڑے گئے۔ چینی سرکار کو اپنے شہریوں کو تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ چینی سرکار کو آج اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
لسبیلہ میں جعلی ہاؤسنگ اسکیمز کی بھرمار||عزیز سنگھور
کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ماہی گیروں کا احتجاج۔۔۔عزیز سنگھور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ : روزنامہ آزادی، کوئٹہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر