گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں میونسپل کمیٹی کا قیام 1867ء میں انگریزوں کے دور میں عمل میں لایا گیا ۔ ہمارے پاس 1868ء کے سال کی ڈیرہ اسماعیل خان کی آبادی کے اعداد شمار موجود ہیں جو بہت دلچسپ ہیں۔ 1868ء میں ڈیرہ کی کل آبادی تقریبا” 25 ھزار تھی جن میں پندرہ ھزار مرد اور دس ھزار خواتین تھیں۔
ہم اپنے بزرگوں سے سنتے چلے آ رہے ہیں کہ پرانے زمانے کسی لڑکے کی دلھن تلاش کرنے میں لڑکے کی ماں کے جوتے گھس جاتے تھے تب جا کے رشتہ ملتا تھے۔اب یہ راز کھلا کہ اس زمانے مردوں کے مقابلےخواتین کی تعداد بہت کم تھی اس لیے بجلی اور گیس کی طرح رشتے بہت شارٹ تھے۔
بہر حال 1867ء میں جب میونسپل کمیٹی قائم کی گئ تو اس کے چیرمین ڈپٹی کمشنر ہوا کرتے تھے ۔1867 ء میں لیفٹنٹ گرے صاحب ڈیرہ کے ڈپٹی کمشنر تھے اور وہی چیرمین میونسپل کمیٹی بنے۔ وائس چیرمین اسسٹنٹ کمشنر کو بنایا گیا۔
اسی طرح اس زمانے ٹانک اور کلاچی کے لیے ایریا کمیٹی بنائ گئ جس کے چیرمین بھی ڈی سی مسٹر گرے ہی تھےاور اسسٹنٹ کمشنر وائس چیرمین۔اس کے علاوہ ہر کمیٹی میں مال افسر ۔کپتان پولیس۔ سول سرجن بھی ممبر ہوتے۔اسی سال ڈسٹرکٹ بورڈ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔
ڈیرہ کمیٹی کے لیے نو ۔ٹانک کمیٹی کے لیے سات ۔کلاچی کمیٹی کے لیے پانچ اور ڈسٹرکٹ بورڈ کے لیے گیارہ
نامزد ممبران کی کونسل قائم کی گئی۔
ڈیرہ کی میونسپل کمیٹی کا شروع میں دفتر محلہ دیوان جگن ناتھ میں بنایا گیا جو آجکل محلہ دیوان صاحب کہلاتا ہے۔اس کے بعد میونسپل کمیٹی موجودہ دفتر میں شفٹ ہوئی اور پرانی کمیٹی کی جگہ فروخت کر دی گئی جو متمول ہندوں نے خرید کر مکانات تعمیر کر لیے۔ پھر بھی کافی عرصے تک اس کوچے کو کوچہ پرانی کمیٹی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ اس کوچے میں شھر کے معروف جج۔وکیل ۔تاجر رہائش پذیر رہے اور پارٹیشن میں وہ ہندوستان چلے گیے۔
ڈیرہ اسماعیل خان چونکہ اس زمانے تجارت کا مرکز تھا اور کنگ منڈی مشھور تھا اس لیے چونگی سے کمیٹی کو بہت زیادہ آمدنی ہوتی تھی جو شھریوں کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتی ۔
میونسپل کمیٹی نے 1886ء میں ٹاون ہال کی شاندار عمارت تعمیر کی جس میں ایک کنواں اور ٹینس کے کئی گراونڈز تھے۔اسی ٹاون ہال میں کمیٹی کے جلسے منعقد ہوتے تھے۔میٹرک اور مڈل کے امتحانات بھی ٹاون ہال میں منعقد ہوتے تھے۔اسی ٹاون ہال میں مشاعرے ۔ڈرامے۔
مداری شو۔مینا بازار۔عید نماز کے اجتماعات ۔ویٹ لفٹنگ۔باڈی بلڈنگ۔ بیڈمنٹن ۔ٹینس۔ کے مقابلے اور شو منعقد ہوتے رہےہیں۔۔
سنا ہے بٹوارے کے وقت اس بلڈنگ میں شوگر سنڈیکیٹ کی ھزاروں من چینی ادھر رکھی تھی جس کو ہنگاموں میں آگ لگا دی گئی اور وہ چینی پگھل کر کانجکیاں والی بستی کے ساتھ گڑھوں میں جمع ہو گئ اور لوگ ٹین اور مٹکے بھر بھر کے گھر لے جاتے رہے۔
میونسپل کمیٹی نے ٹاون ہال میں لائیبریری کی ایک خوبصورت عمارت قائم کی تھی جس میں بہت نایاب کتابوں کا ذخیرہ تھا اور اخبارات آتے تھے۔ اس لائیبریری میں احقرخود کتب و اخبارات کے مطالعہ کے لیےانیس سو ستر کی دہائی میں جاتا تھا ۔اس وقت جنوبی ایشیا کے پہلے مسلمان پائلٹ جناب ایزد بخش اعوان مرحوم جنہیں ہم انکل زیدی کہتے تھے بقید حیات تھے وہ اس لائیبریری میں موجود ہوتے تھے اور نوجوانوں کی رہنمائی کرتے ۔ ہم بھی اس سے مستفیض ہوتے رہے۔ آجکل اس لائیبریری کو گرا دیا گیا اور اس کی نایاب کتابوں کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔وہ کتابیں کہیں پڑی دیمک کا رزق بن رہی ہونگی کوئی بتاتا بھی نہیں کہ وہ تاریخی لائیبریری کدھر ہے ؟
ٹاون ہال میں 1932ء میں ڈپٹی کمشنر کرنل نول کے نام سے نول کلب بنایا گیا اور ہال میں ان ڈورکھیل منعقد ہوتے تھے۔ اس زمانے ریڈیو نیا نیا آیا تھا چنانچہ اس ہال میں ایک ریڈیو سیٹ رکھا گیا جس کو شھری سنتے تھے۔یہ ڈپٹی کمشنر نول وہی ہیں جن کے نام سے ٹانک اڈے کے سامنے نول باغ مشھور ہے اور کھجور کے درخت لگے ہیں۔
ٹاون ہال کو آجکل لیڈی پارک بنا دیا گیا ہے اور اس میں میوزیم قایم کیا جا رہا ہے۔
میونسپل کمیٹی کمپنی باغ کی دیکھبال بھی کرتی تھی جو ٹی بی ہسپتال سے شروع ہو کر علی زئی گیٹ کے سامنے والے راستے تک پھیلا ہوا تھا اور جس پر اب ہسپتال اور لوکل باڈیز کے دفاتر بنا دیے گیے ہیں۔اس باغ میں طرح طرح طرح کے پھول اور گھنے درخت تھے اور شھری تفریح کے لیے آتے تھے ۔مگر بدقسمتی سے ہم باغوں اور کھیل کے میدانوں کے دشمن ہیں اور کوئی جگہ اس مقصد کے لیے نہیں چھوڑی ان پر قبضہ کر کے عمارتیں بنا دیں۔
اُس وقت کی میونسپل کمیٹی نے شھر کے چاروں بازاروں میں ٹیوب ویل لگاۓ جن سے آبنوشی کے علاوہ شھر کے نالوں کی صفائی کا کام لیاجاتا تھا۔
1873ء میں دریا پر کشتیوں کا پل بنایا گیا اس کا محصول بھی کمیٹی وصول کرتی تھی۔ 1914 جنگ عظیم اول کے کےزمانے اس پل کی آمد و رفت سے ایک لاکھ چالیس ھزار سالانہ آمدنی ہوتی تھے۔اس کے علاوہ کشتیوں کا پتن تھا جس سے گندم دریا کے ذریعے سکھر اور کراچی تک جاتی تھی اور ھزاروں روپے محصول وصول ہوتا۔ یاد رہے 1914ءمیں سونا کا ایک تولہ سولہ روپے میں ملتا تھا۔
یہ میونسپل کمیٹی ہی تھی جس نے دریاے دریاۓ سندھ پر چھاونی کے مشرق میں شھر کو سیلاب سے محفوظ رکھنے کے لیے 16 لاکھ روپے کی لاگت سے پکا بند بنوایا تھا ۔ بند بنوانے والی کمیٹی کے صدر پرنسپل مشن سکول مسٹر گائیر تھے جس نے ڈیرہ کے لیے بہت خدمات سرانجام دیں اور بند بنوانے والی کمیٹی کے سیکریٹری لالہ داس رام بگائی تھے ۔ بگائی صاحب کی بھی ڈیرہ کے سکولوں کالجوں اور ویلفیر کاموں میں بڑی خدمات ہیں۔ یہ وہی بگائی ہیں جن کا گھر بگائی ہاوس ڈیرہ ڈاکٹر فضل الرحمان مرحوم کے پرانے ہسپتال کے ساتھ ہے اور جس کو ڈیرہ کے لوگ ورثہ قرار دینے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
آجکل پورے صوبے کی طرح ڈیرہ میں بھی بلدیاتی الیکشن ہو رہے ہیں ۔ پچھلے 74 سال سے ہماری جمھوری حکومتوں کی کوشش رہی ہے کہ بلدیاتی نظام کا مکو ٹھپ کے رکھیں البتہ مارشلائی ڈکٹیٹر بلدیاتی نظام کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔اب عدالتوں کی مداخلت سے پھر بے دلی کے ساتھ بلدیاتی ادارے بحال کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اور پتہ نہیں اس کا انجام کیا ہو گا۔ میونسپل کمیٹی ڈیرہ کے اندر سے واسا نکالا گیا اور کہا گیا شھر کے صفائی کا نظام بہتر ہو جاۓ گا اب یہ شھر کے لوگ جانتے ہیں کہ کتنی بہتری آئی ہے۔ کبھی خبر آتی ہے میونسپل کمیٹی کے پاس ملازمین کی تنخواہوں کے پیسے نہیں کبھی پتہ چلتا ہے کچھ ملازمین محض تنخواہ لیتے اور کام نہیں کرتے ۔بہر حال ڈیرہ کی تاریخی میونسپل کمیٹی جو ابتداء میں بجٹ کے حساب سے سونے کی چڑیا تھی اب نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں. نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں۔۔۔
گلزار احمد
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ