نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

زندگی مبارک||رضاعلی عابدی

وقت اپنے قدموں کے جو نشان چھوڑ جاتا ہے وہ بھی کبھی کبھی پہلے پہلے قدم اٹھانے والے ننھے بچے کے قدمو ں کی چھاپ بن جاتے ہیں۔ وہ جو اچھے دن کبھی کے خواب ہوئے یاد آتے ہیں کہ کس طرح شمعیں جلائی جاتی تھیں بدلتے حالات اپنے ساتھ ایسے ایسے کتنے ہی عذاب لے کر آرہے ہیں۔ دشواریاں بڑھتی جارہی ہیں، ایک اور غضب یہ ہوا ہے کہ اس پڑھے لکھے معاشرے میں جہاں ہر ذی شعور نے سارے ٹیکے لگوالئے ہیں اس کے باوجود کورونا پھر سے پھوٹ پڑا ہے۔کہاں تو ہر روز مرنے والوں کی تعداد چھ سات رہ گئی تھی ، کہاں کورونا کا لقمہ بننے والوں کی تعداد دو سو یومیہ ہوجائے تو تعجب نہیں ہوگا۔ کہتے ہیں کہ جاڑے اس بارخدا جانے کب کا حساب چکائیں گے اور خاص طور پر کتنے معمر مریض لقمہ اجل بنیں گے۔کیا ان تمام آفتوں کا الزام حکومت کے سر پر دھریں؟ کیا لیبر پارٹی کو چاہئے کہ آپے سے باہر ہوجائے اور ٹوری پارٹی کی حکومت کی بنیادوں میں بارود لگائے۔کیا حکومت کو تبدیل کرنا ہی ہر مسئلے کا حل ہے، کیا ہر وہ حکومت نالائق، نا اہل، جاہل اورخدا جانے کیا کیا ہے جو آپ کی نہیں؟یہ رویہ سمجھ میں آتا ہے مگر اس میں حد سے بڑھی ہوئی شدّت سمجھ میں نہیں آتی۔چلئے مانا کہ موجودہ حکومت جو کچھ بھی کر رہی ہے غلط ہے تو کوئی بتائے کہ پھر صحیح کیا ہے۔ متبادل کیا ہے، علاج کیا ہے، دوا کیا ہے؟ اس پر یاد آیا کہ دوا کے معاملے میں منافع خوروں نے سارے نئے پرانے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ مریضوں، معذوروں اور لاچاروں کی بےبسی سے منافع نچوڑنا یقیناً بھاری جرم ہے اور اس کی معافی نہیں مگر اس کا یہ علاج بھی نہیں کہ حکومت کو کان پکڑ کر مسند اقتدار سے اتار دیا جائے اور کسی دوسرے کو بٹھا دیا جائے کہ وہ جو کچھ کرے گا، وہ تاریخ بارہا دکھا چکی ہے۔اس کی سند تاریخ سے ملتی ہے۔سب کہتے ہیں کہ ہمارا زمانہ اچھا تھا۔ اگر اچھا ہوتا تو ،خلقت آپ کو سر پر بٹھاتی، چومتی اور آنکھوں سے لگاتی۔ایسا دوسرو ں کے ہاں ہوتا ہوگا، ہمارے ہاں تو ایسی نہ کوئی ریت ہے نہ روایت۔سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی مقبولیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر آئین میں پابندی نہ ہوتی تو کلنٹن عمر بھر صدر رہتے۔ ہنسی آتی ہے ایسی باتیں سن کر، اور رونا بھی۔

رضاعلی عابدی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلے دنوں میری سال گرہ تھی۔احباب مبارک باد کے پیغام بھیج رہے تھے۔سب کی ایک ہی دعا تھی:سال گرہ مبارک ، سال گرہ مبارک، سال گرہ مبارک۔ اتنے میں کسی کا پیغام آیا:زندگی مبارک۔میں پڑھتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ پھر اچانک رُکا، واپس وہیں گیا۔ وہ پیغام دوبارہ پڑھا، پھر سہ بارہ۔بس پھر تو خیالات کا تانتا بندھ گیا۔ زندگی آکر سامنے کھڑی ہوگئی۔اپنے حواسوں میں اسّی کے قریب سال گرہیں منا چکا ہوں ۔ یہ خیال پہلے کبھی کیوں نہیں آیا۔اچانک کتنے ہی ہم عمر ، ہم جماعت، رفقائے کار ،ہم نفس ،ہم نوا یاد آئے۔ جیسے وہ سب تھے اور جیسے وہ سارے کے سارے اُٹھے اور چلے گئے۔ جانے والوں کی یاد قطار در قطار کھڑی ہوگئی ۔ وقت کا یہ کیسا جھونکا تھا کہ وہ جو قدم بہ قدم چل رہے تھے کہاں پیچھے رہ گئے۔ شاید حبیب جالب نے کہا تھا:زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے۔سچ تو ہے ۔وہ جو بچ رہے ہیں انہیں سال گرہ کی نہیں ،زندگی کی مبارک باد دینی چاہئے۔ابھی گزشتہ سال گرہ کا پیغام کمپیوٹر میں پڑا ہوا ہے کہ نئی سال گرہ آگئی۔ یہ تو ہر سال کا معمول ہوا کرتا تھا ، اس برس کیا ہوا جو کانوں کونیانیا لگا ۔ تو کیا اور چند برس بعد ’زندگی مبارک ‘کہنا سالانہ رسم بن جائے گی۔یہ دعا سن کر کوئی حیران نہ ہوگا، کوئی چونکے گا نہیں،کوئی گہری سوچ میں ڈوبے گا نہیں۔ غرض یہ کہ ہم جو کچھ سوچتے ہیں وہ ہماری فکر نہیں ہوتی، وہ وقت اور زمانے کی ہوا کا رُخ ہوتا ہے جو ہماری سوچوں کی سمت طے کرتا ہے۔

مگر اس سارے معاملے کے اور بھی پہلو ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ سوچنا کہ ابھی دنیا بھی بر قرار ہے ، ابھی ہم بھی باقی ہیں۔ اگر اس کو نعمت مان لیا جائے تو یہ یوں ہی بیٹھے بٹھائے تو نہیں مل گئی۔ کیوں نہ یوں کریں کہ اس کی قدر کریں۔ اگلی سال گرہ شادیانے بجاتی ہوئی آئے تو ان شادیانوں کا کوئی سبب ، کوئی جواز بھی تو ہو۔خوشی کے وہ لمحے ہم نے کمائے ہوں، ان میں ہمارے رویّے ، ہمارے جذبات اور احساسات شامل ہوں ۔ جشن منانے والے ہم تنہا نہ ہوں۔ وہ جو رفیق سفر ہیں ابھی چند قدم ساتھ چلیں یا یوں کہئے کہ ہم بھی دوسروں کو بجا طور پر کہہ سکیں کہ زندگی مبارک۔

عمر کے اس موڑ پر لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں مثلاً یہ کہ لیجئے عمر کا ایک برس اور کم ہوا، زندگی گھٹ گئی، خسارہ ہوا۔ میں ایسے موقع پر احبا ب سے یہ کہا کرتا ہوں کہ زندگی کے مشاہدے اور عمر کے تجربے میں ایک سال کا اضافہ ہونے کی سند مل گئی۔ لوگ ملازمت حاصل کرنے کے لئے اپنی عمر کے جو تجربات لکھتے ہیں جنہیں عرف عام میں سی وی کہاجاتا ہے، اب آپ بڑے وثوق سے اس میں دو چار خانے بڑھا سکتے ہیں۔اب آپ میر تقی میر کے اس شعر کا حوالہ دے سکتے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا:

سرسری تم جہان سے گزرے

ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا

یہ کہنا کتنا بھلا لگتا ہے کہ ہم نے دنیا دیکھی ہے۔ دنیا کے مشاہدے کے دوران آنکھیں کھلی رکھنے والوں سے ’زندگی مبارک‘ کہنے کے لئے اگلے برس کا انتظا رکرنا ضروری نہیں، آج کی فضا میں صبح اٹھ کر دوسروں کو سلام کرنے کی طرح یہ دعا بھی دی جاسکتی ہے۔اس سال گر ہ پر میرے احباب نے عمر میں ایک برس کے بخیر و خوبی گزر جانے پر جو دعائیہ پیغامات بھیجے ، میں نے ان کے جواب میں ایک پیغام بھیجا۔آئیے کیوں نہ مل کر سوچیں کہ آج ہم ایک جیتے جاگتے معاشرے کے درمیان موجود ہیں۔ یہ جو لوگ ہمارے گرد ہیں ان کا ہونا غنیمت ہے۔ یہ نہ ہوتے توہمار ے گرد کس بلا کی تاریکی ہوتی۔ آئیے قدم بہ قدم چلنے والوں کی قدر کریں۔ ان کے دکھ سکھ بانٹ کر جینا سیکھیں، کیا ہی اچھا ہو کہ ہم سب ساتھ ساتھ جئیں۔

وقت اپنے قدموں کے جو نشان چھوڑ جاتا ہے وہ بھی کبھی کبھی پہلے پہلے قدم اٹھانے والے ننھے بچے کے قدمو ں کی چھاپ بن جاتے ہیں۔ وہ جو اچھے دن کبھی کے خواب ہوئے یاد آتے ہیں کہ کس طرح شمعیں جلائی جاتی تھیں ، اگر بتیاں مہکتی تھیں اور بچے پر قرآن کا سایہ کیا جاتا تھا۔ پھر قران کھول کر اس کے اندر رکھا ہوا دھاگہ نکالا جاتا تھا جس کے کنارے پر چاندی کا چھلّا بندھا ہوتا تھا اور گزرے برسوں کی یادگار گرہیں پڑی ہوتی تھیں۔ پھر اسی قرآن کے اوپر دھاگے میں نئے برس کی گرہ لگائی جاتی تھی اور درازی عمر کی دعائیں کی جاتی تھیں۔کیسا غضب ہے کہ وقت وہ ساری رسمیں اڑا کر لے گیا۔ نہیں معلوم وہ دھاگہ کہاں گیا، وہ چاندی کا چھلا کیا ہوا، وہ اس میں پڑی ہوئی گرہیں کہاں رہ گئیں، اور سب سے بڑھ کر ان گرہوں کو شمار کرنے والی وہ امّاں اور وہ باجیاں کس جہاں کو سدھار گئیں۔ اب تو لوگ اس لوبان کی خوش بو میں بسی ہماری سال گرہ کو جنم دن کہنے لگے ہیں۔

ابھی تو دیکھنا ہے لوگ جانے اَور کیا کیا کہیں گے۔

بشکریہ جنگ

مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی

کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی

جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی

رضا علی عابدی کی دیگر تحریریں پڑھیے

About The Author