دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جب دبئی گوادر ہوا کرتا تھا||نورالہدیٰ شاہ

مگر اب وہ جگہ پرانے دبئی کی کلچرل تصویر تھی۔ اللہ کرے بلوچوں کی قسمت بھی اسی طرح بدل جائے اور ہم انہیں دیکھ کر حسد کی آگ میں خاک ہونے کے بجائے خوش ہوا کریں۔

نور الہدیٰ شاہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 عدنان خان کاکڑ کا مضمون پڑھا کہ گوادر کا کھارو چان بننا چاہیے یا دبئی۔ مجھے وہ دبئی یاد آ گیا جو 1966 اور1968 کے ارد گرد کے دنوں میں میری چھوٹی سی نگاہ سے گزرا تھا۔ ہم حج پر جا رہے تھے۔ پی آئی اے کا جہاز حسبِ عادت خراب ہو گیا تھا اور اسے ایمرجنسی میں دبئی ائرپورٹ پر لینڈنگ کرنا پڑی تھی۔ سامان بھی جہاز سے اتار دیا گیا تھا۔ ایک رن وے تھا اور اس کے کنارے بنی ایک بہت ہی چھوٹی سی عمارت کا ایک چھوٹا سا ہال تھا۔ مسافر اپنے اپنے سامان پر چڑھ کر بیٹھ گئے۔ ہمیں ہال میں جگہ نہیں ملی تھی۔ ہم ہال سے باہر بنے چھوٹے سے صحن میں اپنے سامان پر بیٹھے تھے۔ اس صحن نما کھلی جگہ کے گرد لگی سبز رنگ کی آہنی ریلنگ مجھے اب بھی ذرا زرا سی یاد پڑتی ہے۔ ایک صاحب دھوتی اور بنیان میں پک اپ لیے بھاگے پھر رہے تھے۔ کبھی مسافروں کی خبر گیری کرتے اور کبھی جہاز کی۔ اپنا تعارف یقیناً کروایا ہوگا۔ بابا نے دھیمی آواز میں، جیسے بچے کو دلچسپی کی کوئی چیز دکھاتے ہیں، ذرا سی انگلی اٹھا کر ان صاحب کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ پتہ ہے یہ کون ہیں؟ مجھے کیا پتہ کون ہیں؟ جو بھی ہوں میرا کیا!

”یہ اس ملک کے بادشاہ کے بھائی ہیں“ بابا نے سرگوشی کی۔

یاخدا۔ ایسا ہوتا ہے بادشاہ کا بھائی؟ جی نہیں کہانیوں میں تو ایسا نہیں ہوتا! سرخ اور سنہری مخملیں جبا پہنتے ہیں بادشاہ اور اس کے بھائی۔ بس بھائی من بھر کا تاج نہیں پہنتا ہوگا۔ پر کچھ تو رکھتا ہوگا سر پر! ایک بغیر تاج کا بادشاہ میں نے شاہ فیصل بھی دیکھ رکھا تھا۔ مگر وہ بھی بڑے دبدبے والے بادشاہ دکھتے تھے، جو طواف کرتے ہوئے بابا نے مجھے دکھائے تھے۔ ہمیں بیت اللہ سے فاصلے پر کھڑا کر دیا گیا تھا۔ شاہ فیصل طواف کرتے ہوئے قریب سے گذرنے لگے تو بابا نے جھک کر میرے کان میں سرگوشی کی ” یہ ہیں یہاں کے بادشاہ“۔ میں نے جھٹ سے چیخ کر انگلی اٹھا دی اپنے بازو کی پوری لمبائی کے ساتھ ”یہ ہیں بادشاہ؟“ بابا نے ڈر کر میرا ہاتھ پکڑ کر نیچے کردیا اور دونوں بازو سختی سے پکڑ لیے۔ عین اس لمحے شاہ فیصل قریب سے گذرتے ہوئے لمحہ بھر کو ٹھٹکے۔ بابا کو انگلی کے اشارے سے منع کیا کہ بچی کو اس طرح مت پکڑو اور آگے بڑھ گئے۔

پر یہ بادشاہ کا بھائی! ایک دھوتی اور بنیان۔ اوپر سے ہم بن بلائے مہمان۔ وہ بھی آلِ پاکستان! عرب جن کے بوسے لیتے تھے۔

خیر شام گہری ہوگئی۔ پتہ چلا کہ یہاں بجلی نہیں ہے اس لیے جہاز اب صبح میں نکلے گا۔ گاڑیاں لائی گئیں۔

کہا گیا کہ تب تک آپ لوگ دبئی گھومیں پھریں۔ اور چونکہ دبئی میں کوئی مناسب جگہ نہیں ہے پاکستانیوں کی رہائش کے لیے، اس لیے شارجہ میں آپ کی رہائش کا بندوبست ہے۔ دبئی اور شارجہ کے نام پہلی بار گوش گزار ہوئے تھے۔

گاڑی میں بیٹھ کر اماں کے بے حد اصرار پر ہم دبئی کے بازار گئے تھے۔ سمندر کے کنارے کچی گلی کے دونوں اطراف پان بیڑی والوں کے سے کھوکھے ڈھابے ابھی تک یاد ہیں مجھے۔ اندر گئے بھی نہیں۔ اماں نے باہر ہی سے دیکھ کر مزید آگے جانے سے انکار کر دیا کہ یہ تو ملاکاتیار ہے! ( ملاکاتیار اماں کے اصلی گاؤں کے قریب کا نسبتاً بڑا گاؤں ہے۔ آج بھی وہ ویسے کا ویسا، کچے راستوں پر دھول سے اٹا ہوا اور وہی پان بیڑی کے سے ڈھابوں اور کھوکھوں کا بازار۔ بس دبئی کہاں سے کہاں پہنچ گیا) تب دبئی کے اُس بازار پر باقی کی پاکستانی خواتین نے بھی ناک سکیڑی اور بازار دیکھنے سے انکار کردیا۔

رات ہم شارجہ کے دو منزلہ ہوٹل میں رکے۔ ایسا ہی تھا جیسے آجکل کے تھری اسٹار ہوٹل ہوتے ہیں۔ ایک بہت ہی طویل ڈائننگ ٹیبل کے دونوں اطراف ہم ڈنر کے لیے بیٹھے تھے۔ ایک حجّن بی سبز اور کچے سیبوں پر بہت ناراض بھی تھیں اور کھائے بھی جا رہی تھیں۔ کسی نے پوچھا کہ کیوں کھا رہی ہو جب کچے ہیں؟ تو کہنے لگیں کہ پیسے بھرے ہیں میں نے۔ کسی اور نے حجن کو بتایا کہ یہ مفت کے ہیں اس لیے اپنے دانتوں کو تکلیف مت دو۔

صبح ہوئی۔ پی آئی اے تیار تھا اور ہم نے دبئی کو خدا حافظ کہا۔

بہت بہت سال بعد کہیں جاتے ہوئے جہاز دبئی ائرپورٹ پر رکا۔ مسافروں کو اترنا نہیں تھا۔ جہاز کی کھڑکی سے دبئی ائرپورٹ کو دیکھا۔ ایک مناسب عمارت تھی، جس حد تک بھی نظر آئی۔ ابھی کچھ مہینے قبل میں بڑے شوق سے دبئی کا پرانا بازار دیکھنے گئی تھی۔ بیٹی نے بتایا کہ اسے ٹیکسٹائل سوق کہتے ہیں۔ میرا ناسٹیلجیا عود آیا۔ دیکھتے ہی لگا کہ یہ تو وہی بازار ہے! بس راستہ پکا اور چوڑا تھا اور لکڑی کی خوبصورت چھت ڈال دی گئی تھی۔ دونوں اطراف گرم مصالحوں اور سستی چیزوں کی کھلی دکانیں تھیں۔ عقب میں سمندر کو سمیٹ کر کریک بنا دی گئی ہے۔

مگر اب وہ جگہ پرانے دبئی کی کلچرل تصویر تھی۔ اللہ کرے بلوچوں کی قسمت بھی اسی طرح بدل جائے اور ہم انہیں دیکھ کر حسد کی آگ میں خاک ہونے کے بجائے خوش ہوا کریں۔

نور الہدیٰ شاہ کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author