نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نئے کے چکر میں پرانا: سب ہار جائیں گے!|| محمود جان بابر

اسی دوران ایک کزن کی ڈیتھ ہوئی تو وہاں پر دعا کے لئے مختص جگہ پر کچھ زیادہ وقت گزارنا پڑا وہاں پر جو لوگ موجود تھے سرکاری ڈیوٹی کے علاوہ ان کا زیادہ تر کام پی سی او چلانے کے دھندے سے منسلک تھا جتنا وقت میں وہاں موجود رہا وہ یہی باتیں کرتے رہے کہ کیسے وہ اپنے سرکاری کام کے تجربے اور رابطوں کو کام میں لاکر پی سی او سے لانگ ڈسٹنس یعنی بیرون ملک کالز ملواتے رہے ہیں۔

محمود جان بابر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

باقی صوبوں کا تو معلوم نہیں کیا حال ہو گا لیکن جہاں تک بات خیبرپختونخوا کی ہے یہاں تو یہ رجحان بہت تیزی سے جگہ بنا رہا ہے کہ سرکاری افسروں اور ملازمین کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے سرکاری جاب سے مطلوبہ درجے کی وفاداری کی بجائے ایک ایک عدد نجی کاروباروں سے بھی منسلک ہو گئی ہے۔ پرسوں پشاور میں چلنے والی بی آرٹی میں سفر کے دوران پچھلی سیٹ پر بیٹھی ایک سواری کی آواز کانوں میں پڑی جو موبائل فون پر کسی کو اس بات پر آمادہ کر رہا تھا کہ وہ اسے اپنی کار چھ لاکھ روپے کی بجائے ساڑھے پانچ لاکھ روپے میں بیچ دے۔

دوسری طرف سے جو بھی کہا گیا ہو گا لیکن میرے ہمسفر نے کم قیمت لگانے کے لئے جو دلیل دی وہ مجھے متوجہ کرنے کے لئے کافی تھی ”دیکھیں جی میں غریب آدمی ہوں۔ محکمے میں بطور نائب قاصد کام کرتا ہوں ساتھ میں گاڑیوں کا لین دین کر کے گزارہ چلاتا ہوں۔ فون بند ہوا تو ساتھ بیٹھے دوست کو کہنے لگے اب یہ مجھے اپنی کار بیچے گا۔ ان کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ یہ نائب قاصد صاحب پنڈی اور اسلام آباد سے بھی گاڑیاں خرید کر لاتے ہیں اور انہیں پشاور میں بیچنے کے کاروبار سے وابستہ ہیں ان کی باتوں ہی سے اندازہ ہوا کہ وہ مہینے میں تین سے پانچ چھٹیاں کسی نہ کسی طریقے سے کر کے اس کام کو وقت دیتے ہیں لیکن وہ ڈیوٹی کے دوران بھی ساتھی ملازمین کو یہ گاڑیاں بیچتے ہیں۔ وہ اپنے اس کام کے لئے“ گزارہ نہ ہونے ”کا جواز دے رہے تھے۔ اس وقت میری اس رائے کو تقویت ملی جو پچھلے دو ماہ کے دوران چھ ایسے لوگوں سے مل کر ہوئی تھی جو تھے تو سرکاری ملازم لیکن ان کی پہلی ترجیح ان کا ذاتی کاروبار ہوتا تھا۔

دو ہفتے پہلے ایک نکاح کی تقریب میں ایک وفاقی ادارے کے تین ملازم اکٹھے بیٹھے تھے جو ایک دوسرے سے پراپرٹی کے نرخوں پر مسلسل بات کر رہے تھے تو میں نے انہیں کہا کہ پراپرٹی کے اس دھندے میں ان کی دلچسپی اتنی زیادہ کیوں ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ وہ تینوں مل کر پلاٹ، دکانیں اور گھر خریدتے ہیں اور اسے بیچ کر اس میں کمائی کرتے ہیں۔ وہ اپنے جس ساتھی کے بیٹے کی نکاح میں آئے تھے وہ بھی ان کا پارٹنر تھا۔ میں ان کی باتیں سنتا رہا اور سوچتا رہا کہ یہ جو ان کا سارا فوکس ان پرائیویٹ کاروباروں پر ہے تو عوامی مفاد کے جو کام ان کے سپرد ہیں ان میں بہتری لانے اور انہیں بہتر طریقے سے سرانجام دینے کی طرف ان کی توجہ کیسے مرکوز رہے گی؟

اسی دوران ایک کزن کی ڈیتھ ہوئی تو وہاں پر دعا کے لئے مختص جگہ پر کچھ زیادہ وقت گزارنا پڑا وہاں پر جو لوگ موجود تھے سرکاری ڈیوٹی کے علاوہ ان کا زیادہ تر کام پی سی او چلانے کے دھندے سے منسلک تھا جتنا وقت میں وہاں موجود رہا وہ یہی باتیں کرتے رہے کہ کیسے وہ اپنے سرکاری کام کے تجربے اور رابطوں کو کام میں لاکر پی سی او سے لانگ ڈسٹنس یعنی بیرون ملک کالز ملواتے رہے ہیں۔

واپڈا کا کیا ہے اس سے تو بچپن سے وابستہ ہیں اور اس کے ملازمین کے ہاتھوں واپڈا ہی کو پہنچنے والے نقصان کو جتنا خود دیکھا ہے اتنا شاید ہی کسی محکمے کو دیکھا ہو۔ کافی عرصے پہلے کی بات ہے کہ ہمارے گھر سے متصل دوسری سٹریٹ میں واپڈا کے ایک سابق لو گریڈ ملازم رہتے تھے ہم نے کبھی ان کو کام پر جاتے نہیں دیکھا لیکن وہ پورے محلے میں اپنے گھر سے بجلی سپلائی کرتے تھے اور ان گھروں سے ہر مہینے کے فکس پیسے وصول کرتے تھے۔ ایسے ملازمین بھی دیکھے جو کسی درزی کی بڑی دکان کو بڑے بل یعنی خرچے کو اس قیمت پر بچاتے تھے کہ اس کے بدلے ان سب کے کپڑے مفت میں سلتے تھے۔ اس سلائی کے بدلے اس درزی کے میٹر کے یونٹ ہمیشہ اپنی جگہ پر ساکن رہتے تھے۔

کہانی لمبی ہے۔ اب تو فوجی ہو یا سویلین شاید ہی کوئی ایسا ہو جو پرائیویٹ کام میں بھی مصروف نہ ہو۔ یونیورسٹیوں کے اساتذہ بھی مختلف بین الاقوامی اور قومی اداروں کے ساتھ ”بہتر رابطے“ رکھے ہوئے ہیں، یونیورسٹیوں کے مختلف ڈیپارٹمنٹس کا تو اب کام ہی یہی لگنے لگا ہے کہ کیسے اس کی اکیڈیمیا اور طلبہ کو بیرون ملک دوروں اور پراجیکٹس میں شامل رکھا جائے۔

وکیل اور صحافی تو ہیں ہی پرائیویٹ کام کرنے والے لیکن ان کی ایک بڑی تعداد بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ان اداروں سے ہاتھ ملائے بیٹھی ہے جن پر نظر رکھ کر ان سے عوام کے مفاد کو بچانا ان کا بنیادی کام ہے وہ یہ سب کھلے عام کر رہے ہیں۔ حکومتیں بھی سمجھدار ہوتی جا رہی ہیں آج ہم جیسے بہت سارے ”صحافی“ بہت سارے ایسے اداروں کے پے رول پر ہیں جن پر نظر رکھنے کا کام ہماری بنیادی ذمے داریوں میں شامل ہے لیکن ہم بظاہر اس ”معصوم“ کام کے بدلے میں ان اداروں کی غفلتوں سے چشم پوشی کرتے ہیں جس سے عام آدمی براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ ہم جیسے صحافیوں کو مختلف پراجیکٹس کے نام پر مختلف اداروں سے ماہانہ رقم دلائی جاتی ہے اور یوں ہم اس کے بدلے زبان و قلم بندی کا کام پوری ایمانداری سے کرتے ہیں۔

یہ سب کہنے کا مقصد صرف یہ کہنا ہے کہ ہم جو ماضی میں اچھی شہرتیں پانے والے سرکاری ملازم اور افسر دیکھا کرتے تھے وہ اب پیدا ہونا کیوں ناپید ہو گئے ہیں، وجہ یہ ہے کہ اب مقصد سے زیادہ اہمیت پیٹ اور معاشرے میں اپنے سٹیٹس نے حاصل کرلی ہے۔ ہر کوئی اس دوڑ میں ہے کہ کیسے کل کے لئے کچھ بچایا جائے حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ دنیا آج کسی ارب پتی کو نہیں بلکہ اپنے بڑے مقاصد کے لئے زندگیاں وقف کرنے والے قائداعظم، علامہ اقبال اور دوسرے قومی ہیروز کو یاد رکھے ہوئے ہے جن کی وجہ شہرت ان کی معاشی حیثیت نہیں بلکہ وہ کام تھا جس سے لوگوں کو فائدہ ہوا۔

پہلے ہمارے کسی سکول میں ایسا کوئی استاد مل ہی جاتا تھا جس کی اپنے پیشے کے ساتھ محبت و لگن کی وجہ سے وہ پورے شہر میں مشہور ہوتے تھے۔ پہلے اس پش اور شہر میں ایک سرفراز مجسٹریٹ ہوا کرتا تھا جس کے کسی بازار میں نمودار ہونے کا سنتے ہی گرانفروشوں و ذخیرہ اندوزوں کی دوڑیں لگ جاتی تھیں اب کوئی ایسا مجسٹریٹ یا انتظامی افسر نہیں جس کا نام لے کر عام لوگوں کا حق کھانے والوں کو ڈرایا جا سکے۔

سرکاری و پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کی جہاں اپنے کام سے محبت ان کی تسکین کا باعث ہوتی تھی وہی پر یہ ان کے ارد گرد رہنے والوں کی زندگیوں میں آسانی کا بھی باعث ہوتی تھی۔

اس سارے کھیل کا سب سے اہم کھلاڑی یوں تو حکومت ہے کہ اسے چنا ہی اس لئے جاتا ہے کہ وہ معاشرے کے تمام طبقات کو اپنے اپنے مقام پر رکھ کر ان سے عوامی مفاد کا زیادہ سے زیادہ کام لے سکے اور ساتھ ہی ساتھ ان سرکاری ملازمین کی بنیادی ضروریات اور کام کو دیکھتے ہوئے انہیں ان کا حق بھی پورا دے لیکن ہمیں تو حکومتیں بھی اس مرض سے لاپروا نظر آتی ہیں جو معاشرے کی بنیادوں کو گھن کی طرح کھائے جا رہا ہے ایسا ہی چلتا رہا تو وہ وقت دور نہیں کہ جب سرکاری و پرائیویٹ ملازمین کا اپنے کام کے ساتھ تعلق صرف تنخواہ اور سال میں ایک بار اس تنخواہ میں اضافے کے لئے تحریک چلانے کی حد تک ہو گا، یقین نہ آئے تو ذرا اپنے ارد گرد نظر دوڑا لیجیے آج بھی آپ کو شہر پشاور کی سڑکوں پر جلوس ضرور ملیں گے۔

یہ بھی پڑھیے:

افغانستان، جنگ کے پلٹتے سائے۔۔۔ محمود جان بابر

کانچ کا وجود اور پتھر سے دشمنی۔۔۔ محمود جان بابر

پاکستان میں افغانوں کے چالیس سال ۔۔۔ محمود جان بابر

محمود جان بابر کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author