ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روس کے ایک سرکاری چینل پر "دیوار” نام کے ایک پروگرام میں شوہر اور اہلیہ میں سے ایک کو بند کمرے میں جانا تھا، جہاں سننے اور دیکھنے کو کچھ نہیں تھا، ماسوائے ان سوالوں کو سننے اور ان کا جواب دینے کے جو اس سے کیے جاتے۔ بیوی نے شوہر کو بھیجنے کا فیصلہ کیا اور کہا،” فیصلے مرد کو ہی کرنے چاہییں اور تم میرے حقیقی مرد ہو”۔
یہ بات اس ملک کی عورت کہہ رہی تھی جہاں سے ۸ مارچ کو عورتوں کے عالمی دن کے طور پر منائے جانے کی ابتدا ہوئی تھی۔ جہاں دنیا میں سب سے پہلے عورتوں کو طلاق کا حق دیا گیا تھا۔ جہاں دنیا میں سب سے پہلے عورتوں کو رائے دہی کا حق دیا گیا تھا۔ جہاں مردوں کی نسبت تعداد میں زیادہ ڈاکٹر اور مدرس عورتیں ہیں۔ جہاں کی ایک قدیم کہاوت کے مطابق کسی بھی کنبے میں اگر مرد کو گھر کا سر سمجھ لیا جائے تو عورت گردن ہوتی ہے یعنی گردن جدھر مڑے گی سر کو ادھر ہی مڑنا ہوگا۔
اس سب کے باوجود اس ملک میں بھی بڑے عہدے مردوں کے پاس ہی ہیں۔ پارلیمان میں عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت کم ہے۔ آپس کی گفتگو میں مردعورت کو "بابا” یعنی احمق عورت کہتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو عورتیں بھی خود کو اسی نام سے یاد کرتی ہیں۔
یہاں ستر سال سے زائد عرصے تک کمیونسٹ برسراقتدار رہے جو عورت کی آزادی اور عورتوں کے حقوق دیے جانے کو بے حد اہمیت دیتے رہے تھے۔ یہاں عورتوں کے لیے تعلیم اور پیش رفت کے مواقع کسی بھی طرح مردوں سے کم نہیں رہے اور نہ ہیں۔ عورتیں کم تعداد میں ہی سہی مگر خاصے بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہاں بھی عورت کو وہ مقام نہیں مل سکا یا نہیں دیا جا سکا جو مردوں کو حاصل ہے۔
پہلا جواز تو یہ دیا جا سکتا ہے کہ معاشرہ ہے ہی مردانہ بالادستی کا معاشرہ۔ یہ جواز کچھ اتنا غلط نہیں لیکن اتنا درست بھی نہیں رہا کیونکہ مرد کی بالا دستی روز بروز معدوم ہوتی جا رہی ہے جس کا ثبوت بالادست یا ناکارہ مردوں سے طلاق لینے کی خاطر اس معاملے میں زیادہ سے زیادہ عورتوں کی جانب سے پیش رفت ہے جبکہ دوسرا ثبوت مغرب میں۔ تاحتٰی نومولود بچے کی دیکھ بھال تک کرنے میں مرد کا بڑھتا ہوا حصہ ہے۔ مگر روس میں مرد کی نفسیات کے ساتھ ساتھ یہاں کے معاشرے کی صدیوں پر محیط نفسیات بھی عمل پیرا ہے جو مغرب کی نسبت مشرقی زیادہ رہی اور اب تک ہے۔
معاملہ روس کا نہیں، روس تو ایک مثال تھا معاملہ پاکستان کا ہے جہاں لبرل کہلانے والے مرد اور خاص طور پر خود کو لبرل سمجھنے والی عورتوں کی جانب سے مرد کی بالا دستی کو ختم یا کم کیے جانے کی کم از کم لفظی جدوجہد زور پکڑ رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں مردوں کی ایک بڑی تعداد بالخصوص دیہاتوں میں اب بھی عورتوں کو پیر کی جوتی سمجھتی ہے۔ اس کے برعکس وہ اس کے قدموں میں جنت کے متلاشی ہونے کی بھی دعویدار ہیں کیونکہ ہر عورت کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی کی ماں بھی ہوتی ہے۔
یہ معاملہ بالکل سچ ہے کہ پاکستان جیسے معاشروں میں مغرب کی تحاریک اگر وہ محض فیشن سے وابستہ نہ ہوں تو بہت دیر بعد پہنچتی ہیں۔ فیمینزم کی تحریک، مغرب میں شروع کیے جانے کو ایک صدی سے بیشتر عرصہ گذر چکا ہے۔ اگر کہا جائے کہ وہاں یہ تحریک دم توڑ چکی ہے تو نہ غلط ہوگا نہ مبالغہ آرائی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے سیاسی پارلیمان زیادہ مہذب اور زیادہ سماجی ہو چکے ہیں جہاں معاشرے کو درپیش کسی بھی مسئلے کو جلد از جلد قانون سازی کرکے دور کیا جاتا ہے۔ پھر وہاں قانون کی اہمیت بھی ہے۔ اس پر عمل درآمد بھی ہوتا ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے و اہلکار بھی اسی پیش رفتہ سماج کا حصہ ہیں۔
اس کے برعکس پاکستان میں نہ پارلیمان ویسے ہیں، نہ ادارے اور اہلکار، اور نہ ہی قوانین کو اس طرح اہمیت دی جاتی ہے چنانچہ ان پر عمل درآمد کیا جانا اکثر ممکن نہیں ہو پاتا۔ پتہ نہیں کیا بات ہے کہ پاکستان میں صنفی امتیاز کم ہونے کی بجائے بڑھتا چلا جا رپا ہے۔ شاید ایک وجہ مذہبی شدت پسندی کا عام ہونا ہو یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میڈیا کے فعال ہوجانے کے سبب صنفی امتیاز برتے جانے سے منسلک زیادتیوں کے بارے میں علم ہونے لگا ہو، اس لیے ایسے لگتا ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تعلیم عام ہونے سے لوگ ایسی باتوں پر توجہ دینے لگے ہوں۔ غالبا” یہی وجہ ہے کہ صنفی امتیاز کے حلاف رد عمل بھی زیادہ آنے لگا ہے۔
سوشل میڈیا کا عام ہونا ایک بہتر عمل رہا جس کی بنا پر ای پیپر اور مختلف نوع کی ویب سائٹس سامنے آئیں جن پر صنفی امتیاز کے مخالف عناصر کی جانب سے ردعمل سامنے آنے لگا۔ اگر پہلے عصمت چغتائی صنفی امتیاز کو آشکار کرتی تھیں۔ فہمیدہ ریاض اس کے خلاف نظمیں لکھتی تھیں یا کشور ناہید اپنے دبنگ انداز اور کالم نگاری سے اس زیادتی کو عیاں کرتی تھیں تو آج اس سلسلے میں ایک دو نہیں دسیوں نام ایسے ہیں جو سنجیدہ یا طنزیہ تحریروں سے اس روگ کا رونا رو رہے ہیں۔ ان لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ کئی نوجوان اور مرد بھی ہیں جو نہ صرف ان کی ہمت بندھا رہے ہیں بلکہ خود بھی اپنی تحریروں سے اس کارخیر میں حصہ ڈال رہے ہیں۔
لیکن کیا یہ سب کچھ صدا بہ صحرا تو ثابت نہیں ہوگا؟ ایسا تو نہیں کہ اس کا اثر ہی نہ ہو بلکہ اس حوالے سے کچھ قوانین تو پہلے ہی بن چکے ہیں۔ عمل درآمد ہونا نہ ہونا اور بات ہے۔ البتہ اس میدان میں بہت بڑی کامیابیاں ملنا اس لیے ممکن نہیں ہوگا کیونکہ اس سب کے لیے صرف تعلیم یافتہ درمیانے طبقے کی ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی نفسیات تبدیل کیے جانے کی ضرورت ہے ۔ ایسا ہونا تب تک ممکن نہیں جب تک صنعتی معاشرہ ترقی نہ کر جائے۔ صنعتی معاشرہ بھی بس اتنا ہی کردار ادا کر سکتا ہے جتنا مضمون کی ابتدا میں دی گئی مثال سے واضح ہے۔ سوویت عہد تمام ہونے کے بعد روس، مشرقی یورپ اور وسط ایشیا سے عورتوں اور بچیوں کی ایک بڑی تعداد کو طوائقیں بنا دینا اور چین میں قدم قدم پر مساج اور بیوٹی پارلرز میں جنسی مزدوروں کی بڑھتی ہوئی تعداد گواہی دیتی ہے کہ صنفی امتیازکو بہت کم بھی کیا جائے تب بھی معاملہ حل ہو کرکے نہیں دیتا۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر