ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عجیب منطق ہے کہ حکومت کو احتجاج یا احتجاجی دھرنے سے تمام نہیں کیا جانا چاہیے یا یہ کہ ایسا کیا جانا آئین کے مطابق نہیں ہے۔ اس نوع کی بے تک باتیں ٹی وی چینلوں کے ٹاک شوز میں تجزیہ نگار اور اینکر پرسنز عام طور پر کرتے سنے جاتے ہیں۔ بوالعجبی یہ ہے کہ ساتھ ہی کہا جاتا ہے کہ احتجاج کرنا ہر ایک کا حق ہے۔
احتجاج اختلاف اور ناراحتی کے سبب کیا جاتا ہے اور احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ یا مطالبات بھی کیے جاتے ہیں، حکومت کا مستعفی ہونا ایسا ہی ایک مطالبہ ہوتا ہے۔ دنیا کی مثالیں کیوں دیں اپنے ہاں ہی ایوب خان کے خلاف طلباء کے احتجاجات جن میں بعد میں ایوب خان سے ناراض ہو کے علیحدہ ہوئے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی نوزائیدہ پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی بھی شامل ہو گئی تھی، کے سبب اپنے دور کے مرد آہن ایوب خان کچے لوہے کی طرح ہو کر مستعفی ہو گئے تھے۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت بھی پی این اے نام کے سیاسی مذہبی اتحاد میں شامل پارٹیوں اور ان کے کارکنوں و حامیوں کے احتجاجات کے بعد تمام ہوئی تھی۔
البتہ ڈر یہ لگتا ہے کہ ایسا ہونے کی صورت میں فوج کی حکومت یعنی مارشل لاء حاوی ہو جاتا رہا ہے جو آئین کو پامال اور سیاسی پارٹیوں کو بے اثر کر دیا کرتا ہے۔ لفظ دھرنا یعنی "سٹ ان ” پاکستان میں نیا ہے جو موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے متعارف کروایا تھا البتہ اس سے پہلے جب ایک حصہ مشرقی پاکستان بھی ہوا کرتا تھا تو بائیں بازو کے ایک چین نواز بنگالی سیاسی رہنما مولانا بھاشانی نے ” جلاؤ گھیراؤ ” کی اصطلاح متعارف کروائی تھی۔ گھیراؤ کیا جانا دھرنا ہی ہوا کرتا تھا پھر 2014 کے دھرنے میں آج اپنے تئیں بہت ہی جمہوریت نواز وزیر ریلوے شیخ رشید نے جلا دو، برباد کر دو کے مشورے دیے تھے۔ جلایا تو نہیں گیا تھا مگر پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کو البتہ تہہ و بالا کر دیا گیا تھا۔
نواز شریف کی حکومت تو تمام نہیں ہوئی تھی لیکن متزلزل ضرور ہو گئی تھی۔ دھرنے کی موجد تحریک انصاف جلد باز متشدد نوجوان حلقوں میں مقبول بھی ہوئی تھی اور اس تحریک کے رہنما عمران خاں بھی اداروں اور لوگوں دونوں کی ہی نگاہ میں آ گئے تھے۔ انتخابات ہوئے تھے یوں وہ وزیراعظم بن گئے۔ انہوں نے دھرنے کے لیے دھاندلی زدہ انتخابات کا نعرہ لگایا تھا، عبوری حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے نجم سیٹھی پر ” پینتیس پنکچر ” لگانے کی تہمت دھری تھی۔
آج اگر حزب اختلاف کوئی حکومت مخالف تحریک شروع کرتا ہے تو باتیں کی جانے لگتی ہے، تحریک سمندر کی لہروں کی طرح ہوتی ہے جو ابھرتی، گرتی، ٹوٹتی ہے، معدوم بھی ہو جاتی ہے مگر پھر سے ابھر کر ساحل سے ٹکرانے کی خاطر بڑھتی ہے۔ جب مولانا نے تحریک چلائی تھی تب اس قسم کی باتیں نہ کی جاتیں تو ان کا آزادی مارچ بھی عمران خان کی حکومت کو ڈگمگا ضرور دیتا۔ دیکھ لیجے گا اگر حزب اختلاف کی حالیہ ریلیوں نے تحریک کی شکل اختیار کی جو غالبا” کر سکتی ہیں تب بھی بھونپو نما اینکر پرسنز اور پکے پکائے تجزیہ نگار ایسی ہی باتیں کرنے لگیں گے۔
عمران خان کو وزارت عظمٰی تک پہنچانے والے بھی ہیں اور انہیں کے ارد گرد وہ بھی ہیں جو حزب اختلاف کو اکسا اسلام آباد تک لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی حیثیت انہیں میں عمران خان کے حامیوں کی نسبت فی الحال کمتر ہے اس لیے ابھی یہ لگتا نہیں کہ وہ عمران خان کی حکومت کو کوئی بڑی گزند پہنچا سکیں گے۔ البتہ اگر دو بڑی پارٹیاں مل جائیں تو ضروری نہیں مارشل لا لگے بلکہ ایک عبوری حکومت بن سکتی ہے۔ احتجاج اور دھرنے دنیا بھر میں قبل از وقت انتخابات کرائے جانے کی وجہ بنتے چلے آئے ہیں اور ایسا کیا جانا نہ غیر جمہوری عمل ہوتا ہے اور نہ ہی کسی بھی طرح غیر آئینی۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ کوئی کمزور اور نااہل حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ