گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سردیاں اور رنگ برنگی سویٹریں ۔
ہمارے بچپن میں ہماری مائیں پشمینے کی رنگین اون لے کر سلائیوں سے سویٹر بُنتی تھیں۔ یہ اون کے دھاگے بہت خوبصورت انوکھے رنگوں میں ہوتے تھے ۔ سویٹر بننے کا عمل بڑا دلچسپ اور طویل عرصے کا ہوتا تھا۔کئی ہفتے بعد سویٹر تیار ہوتا اس لیے یہ سردیوں کے آنے سے پہلے تیار کی جاتیں۔ گاٶں کی لڑکیوں کو بھی سویٹر بننا سیکھایا جاتا۔ اب مسلہ یہ تھا کہ ان لڑکیوں کے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی تھی کہ وہ اون خرید کے پریکٹس کر سکیں۔ چنانچہ گاٶں کی وہ خواتین جن کے بچوں کے سویٹر بنانے ہوتے وہ ان کو اون خرید کے دیتیں اور بچوں کے سویٹر بنوا لیتیں۔
سردی کی آمد سے قبل گھروں میں رضائیوں کی بھرائی، روئی کی دھنائی اور نئی رضائیوں کی تیاری کا کام بھی زور و شور سے شروع ہو جاتا تھا۔ بھاری بھرکم روایتی دیسی رضائیاں کبھی گھروں میں ہرسال سردیوں کا استقبال کرتی تھیں۔ ان کی روئی دھننے،نئی روئی بھروانے اور پھر ان کی سلائی کا مرحلہ ہوتا تھا تاہم اب جدت اور سہل پسندی نے انہیں تہہ کرکے رکھ دیا ہے۔
عرصے سے دھنیے کا کام کرنے والے کاریگروں کا کاروبار سردیوں میں بھی سرد پڑچکا ہے۔ کاریگروں کا کہنا ہے کہ روئی کا کام بہت کم ہو گیا ہے۔فیشن کی دوڑ میں بھی پولیسٹر کی ہلکی پھلکی رضائیاں روایتی رضائیوں کو بہت پیچھے چھوڑگئی ہیں۔خریدار کہتے ہیں کہ پولیسٹر رضائی کی قیمت کم اور استعمال میں آسان ہوتی ہے۔
سو سال پہلے ہماری معیشت ۔۔
آج سے ایک سو سال پہلے متحدہ ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت تھی ۔ تصویر میں 1917 اور 1919 کے ایک روپے کے دو سکے دکھاۓ گیے ہیں۔ اس وقت ایسے 16 روپیوں سے سونے کا ایک تولہ مل جاتا تھا ۔ برطانوی پونڈ بھی سولہ روپے میں ملتا تھا ۔ آج سونے کی قیمت ایک لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔ یعنی اس وقت کے سولہ روپے آج کے ایک لاکھ روپے کی طاقت رکھتے تھے۔
موجودہ PTI کی حکومت نے چارج لیا تو ڈالر 120 روپے کا تھا اور اسے یکدم 170 کر دیا گیا ۔ہمارے معیشت کے بقراط کہتے ہیں اس سے ایکسپورٹ بڑھتی ہیں یعنی چند ایکسپورٹر کو فاعدہ پہنچانے کے بدلے بائیس کروڑ عوام کو سولی چڑھا دو ۔اب حکومت کو سمجھ نہیں آ رہی کہ مہنگائی کیسے کنٹرول ہو ۔ وہ بقراط اب بھی معیشت کو خربازیاں دے رہے ہیں اور غریب پس رہا ہے ۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ