نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حکومت کو ایک اور بحران کا سامنا !||افتخار الحسن

ملک میں پلاننگ کے فقدان کا یہ عالم ہے کہ گندم کی کاشت سے پہلے جو انتہائی ضروری اقدامات کرنے ہوتے ہیں حکومت اور ادارے ان کو بھول گئے جس نے ایک نئے بحران کو جنم دیا اس وقت ملک بھر میں کھادوں کی شدید قلت ہوگئی

افتخار الحسن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

ویسے تو گزشتہ چند سالوں سے ملک میں ہر وقت کسی نہ کسی چیز کا بحران رہتا ہے اور اب تو عوام بھی بحرانوں سے تنگ آ چکے کبھی مارکیٹ میں چینی نایاب تو کبھی آٹا اور اسی طرح پورا سال بحران کی کیفیت رہتی ہے کسی بھی بحران میں چند افراد کروڑوں کمالیتے ہیں اور کروڑوں افراد اس کا شکار ہوتے ہیں ملک میں پہلے کبھی کبھار کسی چیز کا بحران پیدا ہوا کرتا تھا جس کیلئے حکومت وقت فوری طور پر ہنگامی اقدامات کرتی تھی تاکہ عوام کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے اب تو ہر چیز کا ہی بحران رہتا ہے بس جو بحران شدت اختیار کر جاتا ہے اس کی کیلئے وقتی طور پر معمولی سے اقدامات نظر آ تے ہیں اور پھر چند دن بعد اسی چیز کا بحران پھر سے سر اٹھا لیتا ہے جس کا موجودہ حکومت جواز پیش کرتی ہے کہ یہ بحران دنیا بھر میں ہے جس کی وجہ سے پاکستان بھی متاثر ہو رہا ہے حالانکہ کچھ بحران ایسے بھی جن کا تعلق ہرگز دنیا سے نہیں جوڑا جا سکتا جو صرف اور صرف حکومت کی غفلت ، پلاننگ کے فقدان یا پھر حکومت میں شامل کاروباری شخصیات کے مفادات کے تحفظ کیلئے بحران پیدا کئے جاتے ہیں جیسا کہ حکومت کے اپنے مطابق پاکستان میں گندم کی پیداوار میں تاریخی اضافہ ہوا ہے اور کسان کی جیب میں گیارہ سو ارب روپے اضافی گیا ہے یہ الفاظ وزیراعظم پاکستان عمران خان خود بھی اور ان کے مشیر وزیر بھی کئی بار مختلف تقریبات میں اپنی تقاریر میں کہہ چکے اگر بات درست ہے تو گندم باہر سے کیوں منگوائی گئی اور پھر ملک میں آٹے کا بحران کیوں پیدا ہوا اور آٹے کی قیمتوں میں اضافہ کیوں ہوا ایسے بہت سے سوالات ہیں جو وزیر اعظم سمیت ان کے وزراء کے بیانات کی نفی کرتے ہیں ۔ اسی طرح چینی کے بحران پر تھوڑی سی نظر ڈالی جائے تو اس میں بھی حکومتی قول و فعل میں تضاد نظر آتا ہے چینی بنانے کیلئے کسی چیز کو باہر سے نہیں منگوانا پڑتا تمام کی تمام لوازمات لوکل ہیں یعنی چینی بنانے میں ڈالر کا کوئی کردار نہیں پھر یہ حادثہ کیسے پیش آگیا کہ پاکستان کے وجود میں آنے سے 2017 تک چینی کی قیمت 55 روپے فی کلو گرام اور صرف تین سال میں چینی کی فی کلو قیمت 110 روپے یعنی دگنی کردی گئی گنے کی قیمت میں بھی کوئی اضافہ نہیں کیا گیا اب آنے والے سیزن کیلئے گنے کی قیمت میں معمولی اضافہ کیاگیا ہے جس کا اثر نئی آ نے والی چینی پر پڑے گا حکومت یہاں بھی یہ جواز پیش کرتی ہے کہ شوگر ملز زرداری اور شریف خاندان کی ہیں تو وہ بلیک مارکیٹنگ کرتے ہیں جس کو عوام ماننے کیلئے بلکل تیار نہیں حکومت کاکام ہے عوامی مفادات کا تحفظ کرنا جس کیلئے حکومت اور ادارے قانون کی بالادستی قائم کرنے کیلئے بھرپور اقدامات کریں مگر یہاں ہر بحران پر ایک پریس کانفرنس کرکے سابقہ حکومتوں یا پھر انٹرنیشنل بحران کو جواز بنا کر اپنی جان چھڑا لی جاتی جس کا خمیازہ عام آدمی کو بھگتنا پڑرہا ہے جس کے بوجھ تلے روز بروز دب رہا ہے اور عوام میں اس حوالے سے شدید تشویش پائی جاتی ہے

ملک میں پلاننگ کے فقدان کا یہ عالم ہے کہ گندم کی کاشت سے پہلے جو انتہائی ضروری اقدامات کرنے ہوتے ہیں حکومت اور ادارے ان کو بھول گئے جس نے ایک نئے بحران کو جنم دیا اس وقت ملک بھر میں کھادوں کی شدید قلت ہوگئی اور قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوگیا ہے گندم کی پیداوار میں اضافہ کیلئے فاسفورس کھادیں اور نائٹروجن کھادوں کا استعمال انتہائی ضروری ہے جو دونوں اس وقت کسی بھی قیمت پر دستیاب نہیں جس سے ایک نئے بحران کا پیغام دیدیا یعنی آنے والے سیزن میں گندم کی کمی سامنا پیش آسکتا ہے ۔اس وقت ملک بھر کے کسان اپنی جمع پونجی کھادوں کے حصول پر خرچ کررہے ہیں تاکہ کھادوں کا استعمال کرکے کسان اپنی گندم کی پیداوار میں اضافہ کرسکے فاسفورس کھاد کی قیمتیں 2019.20 میں فی بیگ 3400 روپے تھا جو عموماً کسان ایک ایکڑ زمین پر 2 سے 3 بیگ استعمال کرتے ہیں اس وقت حکومت نے 3400 روپے والے بیگ کی قیمت 8200 روپے فی بیگ مقرر کی جو تقریباً سو فیصد سے زیادہ اضافہ کیا گیا مگر بدقسمتی سے کسان کو اس قیمت پر بھی دستیاب نہیں اور 10 ہزار روپے سے زائد قیمت پر ایک بیگ فاسفورس کا کسان کو مل رہا ہے ۔ فاسفورس کھاد پاکستان میں باہر سے منگوائی جاتی ہے جس کی پلاننگ عموماً ایک سال پہلے کی جاتی ہے اور ملک میں ہر وقت دو فصلوں کیلئے فاسفورس موجود ہوتی تھی اس بار حکومت وقت نے باقی چیزوں کی طرح فاسفورس منگوانے کی طرف توجہ نہیں دی جس سے بحران شدت اختیار کر گیا اب حکومت یہ جواز پیش کررہی ہے کہ دنیا بھر میں فاسفورس کی قیمتوں میں اضافے سے بحران پیدا ہوا ہے قیمتوں میں اضافے کی بات اپنی جگہ ایک تو اس قدر قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ پاکستان میں یہ اضافہ چند پرائیویٹ امپورٹرز کی وجہ سے ہوا ہے جنھوں نے حکومت کی ناقص حکمت عملی کا فائدہ اٹھایا اگر حکومت بروقت فاسفورس ضرورت سے زیادہ منگوالیتے تو قیمتوں میں استحکام رہتا اب سب اپنی قیمت پر بیچ رہے ہیں ۔ موجودہ حکومت میں شاید یہ آئیڈیل وزیر ہیں جو اپنے شعبہ میں مکمل مہارت رکھتے ہیں یعنی کہ وفاقی وزیر فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ سید فخر امام خود ایک بڑے کاشت کار بھی ہیں زرعی ماہر ہیں اور انھوں تعلیم بھی زراعت میں حاصل کی ہوئی ہے اسی طرح صوبائی وزیر زراعت سید حسین جہانیاں وہ زرعی ایکسپرٹ ہیں مثالی کاشت کاری کرتے اور تعلیم بھی زراعت میں ہی حاصل کررکھی ہے ان دونوں سے زیادہ بہتر آپشن شاید موجودہ حکومت کے پاس نہیں تھی مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اگر یہ دونوں وزراء بھی کسانوں کے مسائل سے آگاہی نہیں رکھتے تو پھر کسی سے کیا شکوہ ۔ غفلت کہ انتہا تو یہ بھی ہے کہ سندھ حکومت نے بروقت گندم کی امدادی قیمت کا اعلان کر دیا ہے اور نئی آ نے والی گندم کی قیمت 2200 روپے فی چالیس کلو گرام مقرر کردی گئی ہے جس سے سندھ کے کاشتکاروں کو فائدہ ہوگا اور اپنی گندم کی پیداوار میں اضافہ کیلئے تمام تر وسائل بروئے کار لائیں گے کیونکہ ان کو کنفرم ہوگیا کہ ان کی گندم 2200 روپے میں فروخت ہوگی جس سے وہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت تاحال گندم کی امدادی قیمت کا اعلان نہ کرسکی جس سے پنجاب کے کسان گومگو کی کیفیت کا شکار ہیں اگر معمولی اضافہ کیاگیا اور کھادیں مہنگی خرید کر استعمال کی گئیں تو منافع کی بجائے نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے بہرحال یہ ناقص منصوبہ بندی کا ہی نتیجہ ہے کہ کھاد کی قیمتوں میں سو فیصد سے زائد کا اضافہ کردیا گیا اور پھر بھی کسانوں کو دستیاب نہیں جس کا نقصان جہاں کسانوں کو اٹھانا پڑے گا وہیں حکومت کو باہر سے مہنگی اور غیر معیاری گندم منگوانی پڑے گی گزشتہ سال بھی پاکستان کے کسانوں سے گندم 1800 روپے فی چالیس کلو گرام خریدی گئی جبکہ باہر سے 2600 روپے میں منگوائی گئی اگر بہتر اور بروقت پلاننگ کر لی جاتی تو سستی اور معیاری گندم پیدا کرکے اپنی ضرورت پوری کرنے کے بعد ایکسپورٹ بھی کی جاسکتی تھی گزشتہ دس سال پاکستان کے کسانوں نے اپنی ضرورت کی گندم پیدا کی اور ہرسال ایکسپورٹ بھی کی گئی گزشتہ دو سال سے گندم کی کمی کا سامنا ہے جس کو بہتر حکمت عملی سے ختم کیا جا سکتا تھا جو کہ اربابِ اختیار موقع ضائع کررہے ہیں فاسفورس کھادوں کے علاؤہ اب نائٹروجن کھادوں کا بھی بحران پیدا ہو گیا ہے جس پر روزانہ کی بنیاد پر ڈسٹرکٹ گورنمنٹ اور انتظامیہ کھاد ڈیلرز کے گوداموں اور دکانوں پر چھاپے مار رہی ہے صوبہ پنجاب کے تمام اضلاع میں اس وقت فاسفورس کھادوں کے بعد نائٹروجن کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے کنٹرول ریٹس فی بیگ 1768 روپے ہے مگر اس وقت 2500 روپے سے زائد کا فی بیگ میسر ہے جس سے کسانوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے اور ابھی نائٹروجن کے استعمال کا سیزن فروری کے آ خر تک رہے گا نائٹروجن کھادیں پاکستان میں ہی بنتی ہیں ان کا امپورٹ سے کوئی تعلق نہیں اس کے باوجود کمی ہونا نااہلی کا نتیجہ ہے ۔ حالانکہ حکومت نے گھریلو صارفین کی گیس بھی کھاد فیکٹریوں کو میسر کی گئی کہ پروڈکشن میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے مگر مارکیٹ میں نائٹروجن کھادوں کی قلت کا سامنا ہے ۔ عجیب سی کیفیت پیدا ہو چکی ہے فاسفورس ہم امپورٹ نہیں کرسکے نائٹروجن کھادیں افغانستان ایکسپورٹ کرکے دونوں کھادوں کا بحران پیدا کرلیا گیا ہے اس وقت کسان کو نہ فاسفورس میسر ہے اور نہ ہی نائٹروجن کھادیں ۔ کسان اللہ کے آ سرے پر گندم کاشت کررہا ہے تاکہ پاکستان کے عوام اور خصوصاً شہروں میں رہنے والوں کو باآسانی گندم یا آٹا دستیاب ہو ۔ آ ٹے اور چینی کے تھوڑے سے بحران سے ملک بھر میں شور مچ جاتا ہے کیونکہ یہ زیادہ تر شہر کے رہنے والوں کا مسلہ ہوتا ہے اور لمبی لمبی لائنوں سے لگتا ہے کہ بحران شدت اختیار کر گیا جس پر حکومتیں فوری طور پر اقدامات کرتی ہیں کہیں وزیر اعلیٰ دورے کررہا ہوتا ہے کہیں وزراء فوٹو سیشن کراکے بحران کے خاتمے کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں کھادوں کی قلت کا بحران اس لئے بھی نظر نہیں آتا کیونکہ یہ خالصتاً دیہات میں رہنے والوں کا مسلہ ہے اور حکومت بھی اس کو کچھ زیادہ سنجیدہ نہیں لیتی اس لئے پرائیویٹ بزنس کرنے والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے کیونکہ نہ تو یہاں وزیروں مشیروں کے فوٹو سیشن ہوتے ہیں اور نہ کسان لمبی لمبی لائنوں میں کھڑے ہوتے ہیں جو کیمروں کی زینت بن سکیں کسان خاموشی کے ساتھ دگنی قیمت پر بھی کھادیں خرید کر کسی سے شکوہ نہیں کرتے ۔ گندم سمیت کسی بھی فصل کی بجائی یعنی کاشت سے برداشت تک اور پھر فروخت تک کسان کا سبھی جگہوں پر استحصال ہونے کے باوجود کسان ملک وقوم کی خدمت میں مصروف عمل ہے جس کی مشکلات میں کمی لانا حکومت کا فرض ہے

٭٭٭

یہ بھی پڑھیے:

جنوبی پنجاب ایک بار پھر نظر انداز!||شوکت اشفاق

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

افتخار الحسن  کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author