عمار مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ابھی احمد نورانی سے مل کر آیا ہوں۔ پاکستان انسٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے سرجیکل وارڈ نمبر 3 کے ڈریسنگ روم کے باہر صحافیوں کا ہجوم تھا۔ ڈاکٹر نورانی کے سر کی پٹیاں کھول کر زخم کا دوبارہ جائزہ لے رہے تھے۔ کنپٹی پر ضرب شدید تھی۔ سر کے پچھلے حصے پر بھی زخم کے نشان تھے۔ جو کسی تیز دھار آلے سے لگائے گئے تھے۔ ڈریسنگ روم میں جانے کی سخت ممانعت تھی۔ ڈاکٹر صحافیوں سے التماس کر رہے تھے۔ صحافی عملے سے بحث کر رہے تھے۔ سب کی خواہش تھی کہ ایک نظر نورانی کو دیکھ لیں۔ صحافیوں کے پرزور اصرار پر ڈاکٹرز نے ایک ایک شخص کو اندر جانے کی اجازت دے دی۔ بات کرنے سے منع کیا۔ صرف دیکھنے کی اجازت دی۔
موقع ملتے ہی میں، ڈریسنگ روم میں داخل ہوا۔ سرکاری ہسپتال کا ڈریسنگ جتنا گندا ہو سکتا ہے اتنا ہی گندا تھا۔ ایک طویل سٹریچر نما بستر پر احمد نورانی آنکھیں بند کیے لیٹا تھا۔ ڈاکٹرز اور نرسز کا ایک پینل سر کے زخم کا جائزہ لے رہا تھا۔ زخم کی گہرائی کے سبب سر کے بال صاٖ ف کر دیے گئے تھے۔ فضا میں ٹنکچر اور آیوڈین کی بو پھیلی تھی۔ احمد نورانی کے ٹوٹے ہوئے چپل ابھی تک پاؤں میں تھے۔ میلی سی جینز پر خون کے جا بجا داغ لگے ہوئے تھے۔ ملگجی سی سیاہی مائل شرٹ بھی خون آلود ہو رہی تھی۔ ہاتھ میں کینولا لگا ہوا تھا۔ ایک لمحے کے لئے نورانی نے آنکھیں کھولیں میں نے ہاتھ آگے بڑھایا مگر نورانی نقاہت کے مارے اپنا ہاتھ آگے نہ کر سکا اور پھر آنکھیں موند لیں۔ یوں لگتا تھا وہ دن بھر کی ہولناک کارروائی سے بہت تھک چکا تھا۔ ڈاکٹر نے بھی اس بات کی تصدیق کی اور کہا کہ چند خواب آور دوائیوں کا اثر ہے۔ میں اس نورانی سے واقف نہیں تھا۔ نورانی تو ہمیشہ سے بڑے پرجوش طریقے سے ملتا تھا۔ مصحافہ، معانقہ اور خوب بغل گیر ہوئے بغیر تو ملاقات کا آغاز ہی نہیں ہوتا تھا۔ ابھی بات کرنے کی نوبت کیا آتی کہ اگلے صحافی نے دروازہ کھٹکھٹایا اور مجھے باہر نکلنا پڑا۔ اس دوران میں نے موبائل سے چلتے چلتے چند تصویریں کھینچیں اور میں پاکستان انسٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے سرجیکل وارڈ نمبر 3 کے ڈریسنگ روم سے باہر نکل آیا۔
ہسپتال سے نکلتے ہی ان کے گھر جانے کا قصد کیا۔ چھوٹی سی گلی میں آج بہت سی کاروں کا رش تھا۔ بہت سے صحافی اپنے اہل خانہ کے ساتھ نورانی کی گھروالوں کے دکھ میں شریک ہونے آئے تھے۔ لوگوں کی آمد کیے پیش نظرآج ڈرائنگ روم سے فرشی بستر اٹھا دیا گیا تھا۔ جانے کہاں سے دل جوئی کے لیے آنے والوں مہمانوں کے لئے کرسیوں کا انتظام کیا گیا تھا۔ نورانی کی اہلیہ بڑے حوصلے میں تھیں۔ والدہ کا حوصلہ ٹوٹ رہا تھا۔ ان کے آنسو تھم نہیں رہے تھے۔ وہ کبھی بیٹے کی صحت اور زندگی کے لئے دعا کرتیں اور کبھی ان نامعلوم افراد کو کوسنے دینے لگ جاتیں۔ کبھی خوف سے چپ ہو جاتیں اور کبھی غصے سے مارنے والوں کو بدعائیں دینے لگتیں۔ نورانی کا بیٹا محمد رافع نظر نہیں آرہا تھا۔ پوچھنے پر بھابھی نے بتایا کہ جب گیارہ بجے کے قریب نورانی کی خون میں لت پت تصویریں سکرین پر چلنے لگیں تو رافع نے چیخ کر اپنی والدہ کو بلایا کہ ”امی، امی ابو ٹی وی پر آ رہے ہیں“۔ بھابی کو اس واقعے کی پہلے ہی اطلاع مل چکی تھی۔ انہوں فورا ٹی وی کا چینل تبدیل کیا اور بچے کو کارٹون لگا دیے کہ یہ تصویریں بچے کے ذہن پر نقش نہیں ہونی چاہیں۔
گیارہ بجے کے قریب نورانی اردو یونیورسٹی کے پاس سے گزر رہے تھے۔ ڈرائیور ممتاز بھی ساتھ تھا۔ تین موٹر سائکل سوار وں نے گاڑی کو گھیر لیا۔ تینوں کالج کے سٹوڈنٹ کی عمر کے تھے۔ کسی نے منہ پر نقاب نہیں پہنا ہوا تھا۔ یہ موٹر سائیکل سوار اتنے تربیت یافتہ تھے کہ ان میں سے ایک نے موٹر سائیکل پر بیٹھے بیٹھے گاڑی کی چابی نکال لی۔ یہ وہی گاڑی ہی جس کی چابی گاڑی چلاتے چلاتے اکثر گر بھی جاتی تھی۔ پولیس بھی سامنے تھی، راہگیر بھی موجود تھے۔ لیکن کام کرنے والوں نے نہائت سرعت سے اپنا کام کیا۔ چاقو اور موٹر سائیکل کے لاک سے شدید ضربات لگائیں۔ جس میں کنپٹی والی کاری تھی۔ یہاں کچھ خون منجمد ہے۔ ڈاکٹر اسی زخم کی وجہ سے تشویش کا شکار ہیں۔ اگلے چوبیس گھنٹے نورانی کو نگہداشت میں رکھا جائے گا۔ اس کے بعد اگر کسی سرجری کی ضرورت ہوئی تو ڈاکٹر اس کا جائزہ لیں گے۔
ہمارے مشترکہ دوست طاہر ملک نے نورانی کے بارے میں درست کہا ہے کہ اس کے رویے میں لچک نہیں ہے۔ وہ سیاہ اور سفید کے علاوہ کوئی اور رنگ جانتا ہی نہیں۔ سچ اور جھوٹ کے درمیان اسے نزدیک کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کا سب سے بڑا مسئلہ نامعلوم افراد ہیں جو اب اتنے نا معلوم بھی نہیں رہے۔ اس کو جگہ جگہ لگے ناکوں سے چڑ ہوتی ہے۔ کنٹینروں سے بند کیے راستوں سے وحشت ہوتی ہے۔ جمہوریت کے تقدیس کے لئے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ ووٹ کی حرمت اس کی ساری کشمکش ہے۔ ظلم استبداد کے خلاف وہ سینہ سپر رہتا ہے۔ وہ احمد فراز کا دلداہ ہے۔ سویلین بالا دستی کا نعرہ لگاتا ہے۔
ڈرسینگ روم کے باہر جمع صحافیوں میں سے کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ حملہ کرنے والے نامعلوم افراد کون تھے۔ اس لئے کہ سب جانتے تھے۔ سب جانتے ہیں۔ سب کے چہروں پر ایک ہی سوال تھا کہ ایسا اب کیوں کیا گیا؟ اب تو ٹوئیٹر اکاونٹ بھی ڈی اکٹیویٹ کر دیا گیا۔ خبر بھی خال خال ہی چھپتی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی زبان بندی اختیار کر لی ہے۔ اب کیوں مارا؟ اب کیوں حملہ کیا؟ اب کس بات کا غصہ نکالا؟ اب کس بات کا بدلہ لیا؟ سوال کا جواب جانتے ہوئے بھی سب سوال کرتے رہے، سب سوال بنے رہے۔
احمد نورانی کے ساتھ جو واقعہ آج پیش آیا یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں تھا۔ نورانی کے ساتھ اس سے پہلے بھی اس طرح کے واقعات پیش آچکے ہیں۔ کبھی فون پر دھمکایا گیا، کبھی گھر پر آدھی رات کو نامعلوم افراد آگئے۔ کبھی راستے میں روک لیا گیا، کبھی کسی دفتر میں طلبی ہوئی لیکن نورانی باز نہیں آتا۔ پاناما کیس کے حوالے سے اس کی رپورٹنگ نے اس کے شوق کو مزید مہمیز عطا کی ہے۔ وہ سچ کی تلاش میں رہتا ہے۔ وہ اصل میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں۔
ہمارے دوست مطیع اللہ جان بھی سچ بولنے کی پاداش میں گاڑی پر اینٹوں سے وار کروا چکے ہیں۔ اس طرح کے واقعات سچ بولنے سے روکنے کی ایک مذموم کوشش ہوتی ہے۔ ایک شخص کا نشانہ بنا کر دوسروں کو دھمکایا جاتا ہے۔ لیکن نامعلوم افراد کو اب اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ یہ سفر اب رکنے والا نہیں ہے۔ جسم پر لگے زخم تو جلد مندمل ہو جاتے ہیں لیکن وطن کو گھن کی طرح چاٹنے والے نسلوں تک یاد رہتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات سے اب لوگ خوفزدہ نہیں ہوتے بہادر بن جاتے ہیں۔ سب ہی ہمت پکڑتے ہیں سب ہی نورانی بنتے ہیں۔
اب جب کہ سب سکرینوں پر اس واقعے کی بڑی بڑی خبر یں چل رہی ہیں اور نورانی کا بیٹا محمد رافع کارٹون دیکھ رہا۔ اس لئے کہ اب ہم اس نئی نسل کے لئے ٹی وی پر کارٹون ہی چھوڑے جا رہے ہیں سچ بولنے والے تو ہسپتالوں میں زندگی موت کی کشمکش سے گزر رہے ہیں۔
پہلی تاریخ اشاعت: Oct 27, 2017
یہ بھی پڑھیے:
بندہ ایماندار ہے ۔۔۔عمار مسعود
حکومت کی عجلت اور غفلت ۔۔۔عمار مسعود
پانچ دن، سات دن یا دس دن؟ ۔۔۔عمار مسعود
نواز شریف کی اگلی تقریر سے بات کہاں جائے گی؟ ۔۔۔ عمار مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر