نومبر 17, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بلوچستان کا دائمی سیاسی عدم استحکام||فضیل اشرف قیصرانی

ایک ہی جماعت کے دو امیدواروں کے ساتھ مختلف برتاؤ کی وجوہات میں جاۓ بنا اس وقت یہ نکتہ توجہ طلب ہے کہ تجزیہ کاروں کے اس جملے کا سبب کیا رہا ہے کہ سیاسی تبدیلی بلوچستان سے آئ گی؟

فضیل اشرف قیصرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلوچستان میں پاۓجانے والےسیاسی عدم استحکام کی وجوہات پہ غور کرنا شاید ہمارے تجزیہ کاروں کے ڈومین سے باہر ہے کہ بلوچستان بذاتِ خود تجزیہ کاروں کے ڈومین سے باہر کی چیز ہے۔بلوچستان میں دو بار ہی اقتدار منتخب نمائندوں کو ملا اور دونوں بار ہی انتہائ قلیل مدت میں مرکز کی جانب سے اقتدار واپس چھین لیا گیا۔اقتدار میں اختیار کی بحث تو وفاق پہ بھی ویسے ہی صادق آتی ہے جیسے بلوچستان پہ،مگر جب مرکز نے بلوچستان کو کالونی سمجھ کے ہی گوّرن کیا ہوتو پھر کاہے کا اقتدار اور کہاں کا اختیار!!
خدا معلوم اس میں کون سی حکمت موجود ہے کہ حُکم والوں کی حکمت کا منہ بولتا ثبوت توہمارے ہینڈسم کی صورت ہم سب دیکھ ہی رہے ہیں۔کیا پاکستان کے کسی بھی صوبے میں ایسا ممکن ہے کہ ایک سیاسی جماعت جس کا ظہورانتخابات سے چند ہفتوں قبل ہوا ہو وہ انتخابات میں کلین سوئپ کر کے نہ صرف ایک صوبے کی وزارتِ عالیہ اپنے نام کر لے بلکہ سینٹ کی چئیرمین شپ کے عہدے تک بھی جا پہنچے؟کیا یہ گمان بھی کیا جا سکتا ہے کہ جب اس نوزائیدہ جماعت کے امیدوار براۓ چئیرمین شپ آف سینیٹ کو دوبارہ اعتماد کا ووٹ لینا پڑے تو موجودہ وزیرِ داخلہ بحث کو یہ کہہ کر سمیٹ دیں کہ سنجرانی سیاست کے نہیں بلکہ ریاست کے امیدوار ہیں ۔۔
ایک ہی جماعت کے دو امیدواروں کے ساتھ مختلف برتاؤ کی وجوہات میں جاۓ بنا اس وقت یہ نکتہ توجہ طلب ہے کہ تجزیہ کاروں کے اس جملے کا سبب کیا رہا ہے کہ سیاسی تبدیلی بلوچستان سے آئ گی؟
جس صوبے میں چند ہفتوں عمر والی نوزائیدہ جماعت وزاتِ عالیہ اپنے ہاتھ کر لے وہاں کیا یہ ممکن نہیں کہ وہی اقتدار،اقتدار دینے والے تبدیلی اور ہلچل کے نام پہ واپس بھی لے لیں۔یاد مگر یہ رہے سیاست کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کی روش،گملوں میں برگد اگانے کی بچگانہ خواہش،قاعدہ فیل کو قائد کے منصب کی عطا،قبائیل کو بطرزِ سینڈیمن بذریع سردار کنٹرول کرنے کا بھرم اور مائ باپ کی کھوکھ سے “باپ “کی پیدائش کے چلن کااختتام صرف اور صرف نفرت،تعصب اور عدم استحکام کی صورت ہی بر آمد ہو گا۔یہ عدم استحکام کس جانب جاۓ گا اور اسے کسی جانب کیوں لے جایا جاۓ گا کی بحث پھر کھبی مگر یہ طہے ہے کہ سیاسی عدم کی گود میں صرف عدم استحکام ہی پھل پھول سکتا ہے ۔یوں نہ تو عدم استحکام میں کوئ سڑک مانگے گا،نہ کسی کو صاف پانی کی طلب ہو گی،نہ کوئ اپنے پیاروں کو روۓ گا،نہ کسی کے روزگار کا مسلہ سامنے آۓ گا اور نہ ہی کسی کو یہ یاد رہے گا کہ میرے صوبے میں میرا اختیار کب آۓ گا۔
سو بلوچستان نامی صوبے میں ایسے ہی آنکھوں والے اپنی آنکھوں پہ پٹی باندھ کے آنکھ مچولی کھیلیں گے اور نانینا بینا بن کر باقی ماندہ آنکھوں والوں پر اپنی نابینا حکومت کا سکہ جماۓ رکھیں گے اور راوی تب تک چین ہی چین لکھے گا جب تک چِین بے چین نہیں ہو جاتا۔
فِکری و نظریاتی تقسیم سیاسی معاملات پہ ایک شۓ ہے اور خالصتاً قومی اور اقوامی معامالات پہ اور شۓ۔سیاسی نظریے اور فکر کی تقسیم کا نتیجہ سیاسی اختلاف پہ منتحج ہوتا ہے جو کہ ایک مثبت شۓ ہے جبکہ قومی معاملات میں اسکا نتیجہ ریاست کے غیرمتنازعہ ستونوں کے متنازعہ بننے کی صورت بر آمد ہوتا ہے اور یہ کسی بھی ریاست کی ترقی اور بقا کے لیے منفی اشاریہ ہے۔
یہ معاملات نہ صرف ریاست اور فرد کے رشتے کو کمزور کرتے ہیں بلکہ کئ مواقع پر فرد کو ریاست کے مقابلے پہ لے آتے ہیں اور اس معاملے کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ کئ مواقع پرریاست فرد کے مقابلے پر اتر آتی ہے۔۔۔
یہ مقابلہ پہلی صورت میں بغاوت کی شکل میں بر آمد ہوتا ہے جبکہ دوسری صورت میں اس صورتحال کی شکل انتہائ بھیانک ہوتی ہے۔اس بھینکر صورتحال میں طاقت کا بے دریغ استمال،مذہب کا نا جائز استمال،فتویٰ بازی،غداری کے الزامات اور آخرِ کار ریاست کے غیر متنازعہ ستونوں کی مداخلت کے سبب قومی تباہی ہوتی ہے۔
مفتی طارق صاحب کو کوئ سمجھاۓ کہ حضور یہ مسائل اور ہیں اور جناب کی استعداد اور۔۔۔۔

About The Author