عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتنے ماہ و سال بیت گئے، وطن عزیز سات دہائیاں گزار چکا ہے یا شاید دہائیاں ملک گزار چکی ہیں، پیچھے مُڑ کر دیکھیں تو آج بھی وہی مقام ہے جہاں سے آغاز سفر ہوا، نشان منزل آج بھی دور ہے، زادِ راہ بھی موجود نہیں اور زادِ راہ کی شاید پرواہ بھی نہیں۔
ان دنوں پھر سیاسی مقدمات اور آڈیو ویڈیو ’ثبوتوں‘ کا چرچا ہے۔
سابق چیف جسٹس سے منسوب آڈیو جس میں مریم نواز اور نواز شریف کو دی جانے والی سزاؤں کا مبینہ تذکرہ ہو رہا ہے ’صوتی ثبوت‘ کے ساتھ مارکیٹ میں آ چکی ہے۔ اب اس کا نواز شریف کے مقدمے پر اثر پڑتا ہے یا نہیں مگر صاف نظر آ رہا ہے کہ عدالت سے زیادہ مقدمہ عوام کی رائے کے لیے لڑا جا رہا ہے۔
اس آڈیو کی صحت سے سابق چیف جسٹس انکاری ہیں اور کئی سوال جواب طلب ہیں۔
حقیقت کیا ہے قطع نظر اس کے ان مقدمات کو جس طرح شروع کیا گیا اور جس طور اس کا جواب دیا جا رہا ہے بدقسمتی سے دونوں انصاف کے کٹہرے میں فقط سیاست ہی سیاست ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں متعدد راہنماؤں کو سیاسی مقدمات کا سامنا کرنا پڑا، تاریخ کے کٹہرے میں کبھی جسٹس قیوم کی ٹیپ منظر عام پر آئی اور کبھی سیف الرحمن احتساب کے نام پر انتقام لیتے رہے۔
تاریخ کی عدالت میں ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ آج بھی انصاف کا متقاضی ہے۔
تاریخ اور سیاست و صحافت کے طالبعلموں کو ذوالفقار علی بھٹو کی کتاب ’اگر مجھے قتل کیا گیا‘ ضرور پڑھنی چاہیے۔ کتاب کیا ہے بھٹو صاحب کا ضیاء دور میں اپنے اُوپر لگائے گئے الزامات کا جواب ہے۔ اس تحریر میں ذوالفقار علی بھٹو سے اُن کے لب و لہجے پر اختلاف ہو سکتا ہے مگر حقائق کو جھٹلانا ناممکن ہے۔
ڈھائی سو سے زائد صفحوں پر لکھی تحریر اس ملک کے نظام کا نوحہ ہے۔
کس طرح سنہ 1977 کے انتخابات میں دھاندلی کو وجہ بنا کر ملک میں تحریک کا آغاز کیا گیا، کس طرح مُلا ملٹری اتحاد سویلین اور منتخب حکومت کے خلاف کار فرما ہوا، کس طرح مذہب کارڈ اور نظام مصطفیٰ کا نام لے کر سیاست کی گئی، کس طرح جیل میں قید وزیراعظم پر الزامات لگا کر یک طرفہ مہم چلائی گئی، جس کا جواب ذوالفقار علی بھٹو نے ان صفحات پر دیا جسے بعد میں کتاب کی شکل دے دی گئی۔
اس کتاب میں سول ملٹری تعلقات، اندر کا سرطان کے عنوان سے لکھے گئے ابواب انتہائی اہم ہیں۔
مارشلاؤں اور آئین کی مسلسل پامالی کے تناظر میں مملکت پاکستان کے دو لخت ہونے اور اندرونی بحران سے متعلق تفصیلات موجود ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اسی کتاب میں خارجہ تعلقات سے متعلق بھی تفصیلی لکھا ہے۔
وہی انتخابات، دھاندلی، منتخب حکومت کے خلاف محلاتی سازشیں، وہی سول ملٹری تعلقات کی کہانی۔۔ یوں سمجھیے ذوالفقار علی بھٹو نے ’مجھے کیوں نکالا‘ کا مقدمہ اس اہم دستاویز کے ذریعے عوام کے سامنے رکھ دیا۔ بھٹو نے اپنی کردار کُشی اور اپنے ساتھ ہونے والی عدالتی ناانصافی کا مقدمہ تاریخ کے کٹہرے میں پیش کیا، تاریخ کے اس اہم ترین مقدمے میں قلم گواہ ہے اور ماضی کے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو پر بدعنوانی کا کوئی الزام نہ تھا مگر ضیا الحق کے دور میں اُن کی ذات پر لگے الزامات کا جواب جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے دیا اُسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ پڑھنے والے خود دل پر ہاتھ رکھ کر اس کے سچا ہونے کی یقین دہانی کرتے ہیں، نہ کسی عدالت کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی وکیل چاہیے۔
وقت بدل گیا ہے مگر نہ حالات بدلے ہیں اور نہ ہی واقعات۔۔۔ ہاں اشخاص ضرور بدل گئے ہیں۔ تاریخ کی غلط طرف کھڑے ہوئے درست سمت آنے کی کوشش کر رہے ہیں، خود طاقتور ایوانوں کا حصہ بن چکے ہیں، محلاتی سازشیں کرنے والے سازشوں کا شکار ہو رہے ہیں، آہنی ہاتھ آئین کو مگر گرفت میں آج بھی لیے ہوئے ہیں۔
تاریخ کے اس باب میں ذوالفقار علی بھٹو سے ہوئی زیادتی اور ظلم کی گواہی خود جج صاحبان نے دی۔
ہاں اب وقت بدل گیا ہے۔ انصاف کے حصول کے لیے شاید آڈیو ویڈیو کا سہارا لینا پڑتا ہے مگر یاد رہے تاریخ کا انصاف کڑا بھی ہے اور دیرپا بھی۔
عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
یہ دھرنا بھی کیا دھرنا تھا؟۔۔۔عاصمہ شیرازی
نئے میثاق کا ایک اور صفحہ۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ