ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الارم بج رہا ہے، ٹرن ٹرن، ٹرن۔ کسلمندی سے کروٹ بدلتے ہوئے سائیڈ پہ رکھے ہوئے موبائل فون کو ہم ادھ کھلی آنکھ سے دیکھتے ہیں جس سے موسیقی نما الارم کی آواز ہمیں جاگنے پہ مجبور کر رہی ہے۔ آہ، کس قدر بدل گیا وقت، کہاں گئیں سرہانے رکھی وہ بڑی سی گھڑیاں جن کی سوئی مروڑ کے الارم سیٹ کیا جاتا تھا اور وہ ایسی آواز میں بجتا کہ قبر میں پڑے مردے بھی جاگ جاتے۔ ہوسٹل میں ہماری روم میٹ قمر ایک ایسے ہی الارم کی مالک تھیں اور پانچ برس ہم اسی الارم کی بے سری آواز سے مستفید ہوئے۔
اور اب یہ ٹھنڈے میٹھے سروں جیسی گھنٹیاں ہمیں بیدار کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ صبح کے ساڑھے پانچ بجے ہیں، چلیے ایک اور دن نصیب ہوا، ایک اور دن، مشقت، محبت، ریاضت، عداوت اور نہ جانے کس کس اور جذبے سے اٹا ہوا۔ نہیں معلوم کہ ہمارے حصے میں کیا کیا آئے گا؟
فون ہاتھ میں ہے اور اب ہماری بے تاب نظر کچھ اور شہروں کے وقت کا طواف کر رہی ہے۔ تین مختلف شہروں کا وقت جنہیں ہم نے فون پہ اپنے وقت سے جوڑ رکھا ہے۔
اچھا تو وہاں اس وقت شام کے ساڑھے پانچ بجے ہوں گے۔ یقیناً یونیورسٹی بند ہو چکی ہو گی اور وہ اپنے کندھے پہ بیک پیک ڈالے ہوسٹل کی طرف تیزی سے جا رہا ہو گا۔ ہمیں علم ہے کہ اس وقت اس کے سر پہ کیا دھن سوار ہو گی؟ کمرے میں پہنچتے ہی وہ بیگ ایک طرف رکھے گا، ٹریک سوٹ پہنے گا، جم کے بیک پیک میں پانی کی بوتل رکھے گا اور باہر کھڑی سائیکل لے کر چل پڑے گا۔ کیمپس میں آدھ پون گھنٹہ سائیکل چلانے کے بعد جم پہنچ جائے گا جہاں آج کے لئے اس نے مختلف ورزشیں کرنے کا ٹارگٹ مقرر کیا ہو گا۔ ورزش کرتے ہوئے وہ ذہن میں کسی نہ کسی دھن کو ترتیب دے رہا ہو گا۔ لمبے گھنگھریالے بالوں کی پونی کندھوں پہ جھول رہی ہو گی۔ ورزش ختم کر کے جم کے ملازمین سے دس پندرہ منٹ بات کرتے ہوئے ان کے مسائل جاننے کی کوشش کرے گا اور کچھ عجب نہیں کہ کسی کو رات کا کھانا کھانے کے لئے کچھ پیسے بھی دے دے۔
یہی تو وہ کرتا تھا یہاں بھی، جم سے واپسی پہ روزانہ اس کے پاس ایک کہانی ہوتی تھی۔ اماں جم مالکان ان ورکروں کو دو دو سال چھٹی نہیں دیتے، اماں وہ اپنی ساری تنخواہ گھر بھیج دیتے ہیں، اماں وہ سارے دن میں ایک بار کھانا کھاتے ہیں، اماں ایسا کیوں ہوتا ہے؟ سارے دن کی محنت کے بعد بھی معاوضہ اتنا کم؟ ہم چپ چاپ اسے دیکھتے رہتے۔ کیا کہتے کہ سرمایہ دارانہ نظام ایسا ہی ہوتا ہے جس میں غریب محنت و مشقت کے باوجود بھوکا ہی رہتا ہے۔
ہماری نظر اب دوسرے شہر کے وقت کا طواف کر رہی ہے۔ اوہ وہاں تو شام کے ساڑھے آٹھ بج چکے، اس وقت باہر اندھیرا اور ٹھنڈ ہو گی کہ سرما شروع ہو چکا۔ وہ یونی ورسٹی سے واپس آ کر آڑی ترچھی بستر پہ لیٹی کچھ پڑھ رہی ہوگی، لیپ ٹاپ، کنڈل، کتابیں اور فون بستر پہ چاروں طرف پھیلے ہوں گے۔ پاس رکھی کرسی میز پہ بھی کتابوں کا ڈھیر ہو گا۔ پڑھتے پڑھتے بے خیالی میں انگلی کا ناخن منہ میں چبا رہی ہو گی۔ کھانے میں کچھ نہیں بنایا ہو گا کہ کچن میں جانا اسے شدید ناپسند ہے۔
اماں ہوتیں تو مسکرا کر کہتیں، بالکل اپنی ماں کی طرح، باہر کا جو مرضی کام کروا لو، پڑھائی لکھائی، شاپنگ، بلنگ مگر کھانا پکانا توبہ توبہ! ہمارے پاس جواب ایک ہی تھا، اتنا بورنگ کام روز روز کیسے کیا جائے بھئی؟ پیٹ ہی بھرنا ہے نا تو کچھ بھی کھایا جا سکتا ہے۔ دو کھیرے، دو ٹماٹر اور ایک کپ چائے۔
یہی وہ بھی سوچ رہی ہو گی، پیٹ میں کچھ ڈالنے کے لئے خواہ مخواہ کی مشقت کیوں کروں؟ بریڈ پہ نیوٹیلا لگا کر کھا لوں گی، کیا فرق پڑتا ہے کہ کل بھی یہی کھایا تھا اور پرسوں بھی۔ یہی سوچتے سوچتے وہ کچھ لکھنے میں مصروف ہو گئی ہو گی۔
ہماری نظر اب ایک اور شہر کے وقت کا طواف کرتے ہوئے وہاں پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے جہاں رات کے ساڑھے نو بجے ہیں۔ کمرے میں لیمپ آن ہو چکے ہیں۔ سارا دن بہت سی میٹنگز بھگتانے اور ڈھیروں کام نمٹانے کے بعد تھکاوٹ تو بہت ہے لیکن پرلطف اور اشتہا انگیز کھانا بنانا بھی اسے بہت بھاتا ہے۔ مختصر سے کچن میں نوے کی دہائی کے مشہور گیت بج رہے ہیں، ایک دیگچی میں نوڈلز ابل رہی ہیں، دوسرے چولہے پر اٹالین ساس بن رہی ہے۔ ہاتھ میں پکڑے مگ سے کافی کی چسکیاں بھرتے ہوئے وہ سب کام اکٹھے کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
یہ ہنر اس نے اپنی نانی سے سیکھا ہے جو ایک ہی وقت میں بہت سی چیزیں چولہے کے مختلف برنرز پہ چڑھا دیتیں۔ کبھی ایک دیگچی میں چمچ ہلاتیں، کبھی دوسری کا ڈھکن اتار کر چیک کرتیں، اور کبھی تیسری کے نیچے آنچ تیز یا آہستہ کرتیں۔ ساتھ میں ادھر ادھر تیزی سے چلتی ہوئی باتیں بھی کرتیں اور بقیہ معاملات پر بھی ان کی نظر رہتی۔
پاستا بن چکا ہو گا اور اب وہ ٹی وی پہ دل والے دلہنیا لے جائیں گے نامی فلم لگا کر پاستا کھا رہی ہو گی۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے وہ یہ فلم کم از کم سو مرتبہ تو دیکھ ہی چکی ہے لیکن اس کا دل نہیں بھرتا۔ کبھی کبھی ہمیں یہ لگتا ہے کہ فلم دیکھنے کا تو محض بہانہ ہے وہ بنیادی طور پہ اس لمحے میں جینا چاہتی ہے جب اس نے یہ فلم پہلی دفعہ دیکھی تھی۔
نوے کی دہائی کے آخری برس چل رہے تھے جب اس کی وی سی آر اور فلموں سے آشنائی ہوئی۔ شام کو سکول کا کام کرنے کے بعد اس کا پسندیدہ مشغلہ ننھے منے ہاتھوں سے وی سی آر میں کیسٹ لگا کر آن کرنا ہوتا تھا۔ وہ وی سی آر بھی اسی کی فرمائش پہ خریدا گیا تھا جس میں ہر روز کوئی نہ کوئی فلم لگا کر دیکھنا اس کے لئے لازم تھا۔ اکلوتے بچے نے ماں کی مصروفیات پہ واویلا مچانے کی بجائے اپنے لئے کتابوں اور فلموں کا انتخاب بچپن میں ہی کر لیا تھا۔
الارم پھر سے بجنے لگا، ٹرن ٹرن ٹرن۔ اے لو، پونے چھ بج گئے۔ چلو بھئی اب بستر چھوڑو، اور ہسپتال پہنچنے کی تیاری پکڑو۔ دنیا کے چار مختلف شہروں میں بیک وقت جینے کا یہ تجربہ بہت انوکھا ہے۔ کہنے کو ہم ایک شہر میں ہیں لیکن نہیں، ہم تو چاروں شہروں میں ایک ہی وقت میں رہتے ہیں۔ کہیں سورج ہمارے ساتھ طلوع ہوتا ہے تو ہمارے سامنے غروب۔ کہیں چاندنی کا فسوں پھیلتا ہے تو کہیں دن کا اجالا۔ دنیا کے تین شہر جن کا وقت ہمارے فون پہ ہمارے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ ان تین شہروں میں رہنے والوں کو تصور کی آنکھ ہر لحظہ ہمارے دل کے قریب رکھتی ہے، ماں کے دل کے تار تو ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔
الارم پھر بج رہا ہے۔ ٹرن ٹرن ٹرن۔
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر