نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہمارے دور میں غربت کم ہوئی||ظہور دھریجہ

کھاد اور بجلی زراعت کی بنیادی ضرورت ہے ، ہمسایہ ملک بھارت میں زراعت کیلئے بجلی فری اور کھاد کی قیمتیں پاکستان کے مقابلے میں بہت کم ہیں ، زرعی ادویات ہمسایہ ملک میں خالص ہونے کے ساتھ سستی بھی ہیںمگر پاکستان میں جو صورتحال ہے اس سے نہ صرف یہ کہ کاشتکار بد حالی کا شکار ہے بلکہ پیداوار میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلے دنوں اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ہمارے دور میں ملک سے غربت کم ہوئی ، غربت ان ممالک میں بڑھتی ہے جہاں حکمران چور ہوں ، وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ قانون کی بالا دستی والے ملک میں غربت نہیں ہوتی ۔ غربت میں کمی کے حوالے سے وزیر اعظم کے بیان اور زمینی حقائق میں زمین و آسمان کا فرق ہے، اصل حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ تین سالوں سے پاکستان میں غربت اور بیروزگاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے،
ممکن ہے کہ وزیر اعظم کو ان کے وزیر مشیر حقیقی صورتحال سے آگاہ نہ کرتے ہوں مگر ان کے عوام کے پاس آ کر اپنی آنکھوں سے حالات دیکھنے چاہئیں، غربت کے حوالے سے ایک طرف وزیر اعظم کا بیان آیا ہے دوسری طرف اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان میں بیروزگاری 4.8فیصد مزید بڑھے گی ، آئی ایم ایف نے معیشتوں کی بحالی پر مبنی رپورٹ جاری کر دی، جس کے مطابق سال 2022ء پاکستان کیلئے اچھا ثابت نہیں ہوگا اور اشیائے ضروری کی قیمتوں میں 8.5فیصد اضافہ جاری رہے گا جبکہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ 0.6سے بڑھ کر 3.1فیصد ہو جائے گا۔
یہ آئی ایم ایف کی بات تھی دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کے اپنے ادارے کیا کہتے ہیں ، پچھلے دنوں سٹیٹ بینک نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کر دیا جس میں سود کی شرح میں ڈیڑھ فیصد اضافہ کیا گیا ہے، درآمدات اور ترسیلات میں کمی جبکہ جاری کھاتوں میں خسارہ اور مہنگائی بڑھی ہے۔ زری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی ) نے اپنے اجلاس میں پالیسی ریٹ کو 150بیسز پوائنٹس بڑھا کر 8.75فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سٹیٹ بنک کے اعلامیہ کے مطابق پچھلے اجلاس کے بعد مہنگائی اور توازن ادائیگی سے متعلق خطرات بڑھے ہیں ۔ حقیقت یہی ہے کہ کرونا کے بعد سب سے بڑی مصیبت مہنگائی ہے ،
یہ ٹھیک ہے کہ مہنگائی عالمی مسئلہ ہے اور وزیر اعظم عمران خان نے بھی اس طرح اشارہ کیا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں بیروزگاری اور مہنگائی نے غریب عوام کا کچومر نکال کر رکھ دیا ہے، حکومت نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم نہیں کریں گے مگر نہ صرف آئی ایم ایف کی شرائط دھڑا دھڑ تسلیم کی جا رہی ہیں بلکہ ایسے لگتا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں ۔ پچھلے دنوں مشیر خزانہ نے یہ کہہ کر چونکا دیا کہ بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ ڈالر کہاں کا کہاں پہنچ گیا، خدشہ ہے کہ یہ ڈالر 200روپے تک نہ پہنچ جائے اور پاکستان میں پٹرول کی قیمت ایک ڈالر فی لٹر نہ ہو جائے۔
اسٹیٹ بنک نے اپنی نئی مانیٹری پالیسی میں یہ بھی کہا کہ اجناس کی مسلسل بلند قیمتوں اور مضبوط ملکی سرگرمی نے جاری کھاتے کے خسارے کو مالی سال 2021-22ء کی پہلی سہ ماہی میں3.4ارب ڈالر کی بلند سطح پر رکھا، توانائی کی بلند قیمتوں اور خدمات کی درآمدات بڑھنے کے باعث اکتوبر میں یہ خسارہ بڑھ کر 1.66ارب ڈالر ہو گیا جبکہ ستمبر میں 1.13ارب ڈالر تھا۔ مالی سال 2021-22ء کیلئے جاری کھاتے کا خسارہ جی ڈی پی کے 2۔ 3فیصد کی پچھلی پیش گوئی سے تجاوز کر جائے گا ۔ بڑھتے ہوئے جاری کھاتے کے خسارے کے ساتھ مطابقت کے حوالے سے اس نے خاصا بوجھ برداشت کیا، گزشتہ ایم پی سی اجلاس کے بعد سے روپے کی قدر مزید 3.4فیصد گر گئی ہے، امریکی ڈالر مئی سے بیشتر ابھرتی ہوئی منڈیوں کی کرنسی کے مقابلے میں بڑھا ہے۔
معاشی اعتبار سے یہ تمام باتیں خوفناک صورتحال کی نشاندہی کرتی ہیں ۔ مستقبل میں ملکی طلب کو قابو میں رکھنے کیلئے بجٹ میں طے کردہ مالیاتی یکجائی کو حاصل کرنا ضروری ہوگا، منصوبے سے بڑھ کر بنیادی مالیاتی خسارہ مہنگائی اور جاری کھاتے کے منظر نامے کو بدتر کر سکتا ہے اور بحالی کی پائیداری کو مخدوش کر دیگا۔ملک میں مہنگائی کا جو طوفان آیا ہوا اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ زندگی بچانے والی ادویات بہت مہنگی ہو چکی ہیں ،
گزشتہ تین سالوں کے دوران بعض ادویات 600فیصد تک مہنگی ہو چکی ہیں ۔حکومت کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ ادویات مہنگی نہ کی جائیں تو دو ساز ادارے ادویات شارٹ کر دیتے ہیںیہ ایک ایسا عذر ہے جسے عذر گناہ بد تر از گناہ کا نام دیا جا سکتا ہے، وزیر اعظم تو مافیاز کے خلاف جنگ کرنے آئے تھے ،وہ مسلسل شکست سے دو چار ہوتے جا رہے ہیں مگر شکست تسلیم نہیں کر رہے ،
مہنگائی کے حوالے سے اگر اپوزیشن بات کرے تو بلاشک تسلیم نہ کریں مگر حکومت کے اپنے ادارے جو بات کریں کم از کم اُسے تو تسلیم کر لیا جائے ۔ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مہنگائی میں 1.07 فیصد مزیر اضافہ ہوا ہے جس سے ملک میں مہنگائی کی مجموعی شرح 18.34 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔میں نے پچھلے دنوںبھی لکھا تھا اور باردیگر عرض کر رہا ہوں کہ ایک طرف اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے ملک میں آئے روز بڑھتی مہنگائی پر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف حکومت کی طرف سے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے۔پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے ،
کھاد اور بجلی زراعت کی بنیادی ضرورت ہے ، ہمسایہ ملک بھارت میں زراعت کیلئے بجلی فری اور کھاد کی قیمتیں پاکستان کے مقابلے میں بہت کم ہیں ، زرعی ادویات ہمسایہ ملک میں خالص ہونے کے ساتھ سستی بھی ہیںمگر پاکستان میں جو صورتحال ہے اس سے نہ صرف یہ کہ کاشتکار بد حالی کا شکار ہے بلکہ پیداوار میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی معیشت کا واحد سہارا کپاس اور تارکین وطن کی ترسیلات ہیں ، کپاس ملک کی مجموعی پیداوار کا 70فیصد سرائیکی وسیب مہیا کرتا ہے اور بیروزگاری کے باعث وسیب کے لاکھوں افراد بسلسلہ روزگار بیرون ملک مقیم ہیں مگر عمران خان کے دور میں وسیب کا جو حال ہوا ہے 100دن میں صوبہ بنانے کا وعدہ تو اپنی جگہ رہا وسیب کو ایک بھی انڈسٹریل زون نہیں دیا گیا جو شہر پہلے سے صنعتی ترقی کا حب بنے ہوئے ہیں نئے انڈسٹریل زون بھی موجودہ حکمرانوں نے انہی علاقوں کو دئیے ہیں اور وسیب کو صرف لولی پاپ کے سوا ابھی تک کچھ نہیں ملا۔ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ غربت اور بیروزگاری کے باعث وسیب کے لوگوں سے جینے کا حق بھی چھینا جا رہا ہے۔ عمران خان توجہ کریں ورنہ ووٹوں کیلئے پی ٹی آئی کس منہ سے وسیب میں آئے گی ۔

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author