نذیر ڈھوکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کو دی جانے والی پھانسی کے حوالے صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں 10 سال سے سماعت کا منتظر ہے، قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کے خلاف عدالتی فیصلے پر صدر مملکت جناب آصف علی زرداری نے سپریم کورٹ سے رائے لینے کیلئے ریفرنس بھیجا تھا ،قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کو دی جانے والی پھانسی کے حوالے سے کئی شہادتیں ریکارڑ پر آ چکی ہیں اس میں اہم شہادت سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی ہے جو اس بینچ میں شامل تھے ، جسٹس ریٹائرڈ نسیم حسن شاہ کا شمار ان ججوں میں ہے جنہوں نے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کو پھانسی کی سزا دی تھی ، جسٹس ریٹائرڈ نسیم حسن شاہ نے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اقرار کیا تھا کہ بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا غلط تھی وہ بے گناہ تھے ، لاہور ہائی کورٹ کے ایک اور جج صاحب نے ایک۔انٹرویو میں کہا تھا کہ بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا دینے والے جج مولوی مشتاق بھٹو صاحب سے تعصب رکھتے تھے اور مشتاق نجی محفلوں میں بھٹو صاحب کے خلاف زہر اگلتے تھے جس کی وجہہ سے مذکورہ جج صاحب نے اپنے منصب سے استعفی دیا تھا ۔
اگر چہ دنیا بھر کے منصفوں نے بھٹو شہید کو دی جانے والی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیا تھا ، تاریخ نے بھٹو شہید کو ھیرو اور قوم نے شہید قرار دیا تھا اور تو اور پاکستان کی کسی عدالت میں بھٹو شہید کو دی جانے والی سزا کو بطور حوالہ بھی نہیں سنا جاتا ، مجھے یہ کہنے میں کوئی دکت محسوس نہیں ہوتی کہ بھٹو صاحب کو سزا سنانے والے جج نہیں جلاد تھے ، کیونکہ مذکورہ مقدمے کی لاھور ہائی کورٹ میں ہر سماعت انصاف پر دہبہ نظر آتی ہے کیونکہ مقدمے سماعت کے دوران شہید بھٹو کے ساتھ جو توہین آمیز سلوک کیا گیا اس کو محسوس کرتے ہی متلی آنے لگتی ہے ، کبھی بھٹو شہید کو نام کا مسلمان کہا گیا ،کبھی قابل نفرت جملے کسے گئے جو کسی جج کا منصب رکھنے والے کو زیب نہیں دیتے ۔ سچ یہ ہے کہ بھٹو کے عدالتی قتل کے جرم میں عدلیہ گزشتہ 42 سال سے تاریخ کے مجرموں کے کٹہرے میں کھڑی ہے ، ایک نہیں دو نہیں تیسرا نسل پوچھ رہا ہے کہ آخر عوام کے پہلے منتخب وزیراعظم قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید سے انصاف کب ہوگا ؟ قدرت ااپنا فیصلہ دے چکی ہے جس نے مولوی مشتاق کی جنازے نماز بھی ہونے نہیں دی خلاد جج کا جنازہ اٹھانے والوں پر جنگلی مھکیاں بڑے بھونڈ قہر بن کر ٹوٹے اور وہ مولوی مشتاق کا جنازہ پھینک کر بھاگ گئے ۔ مغفرت کرنے والی اللہ کی ذات ہے مگر وہ کسی انسان کے قتل کو ہرگز معاف نہیں کرتی ۔ آج مقتول بھٹو کا مزار روشن ہے ہر دن ہزاروں انسان اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرکے دعاوں کے پھول بھٹو صاحب کی روح کو بھیج کر ان کے ایثال و ثواب کیلئے دعا کرتے ہیں، دنیا بھر میں آباد ان سے عشق کرنے والے نہ پانچ جنوری بھولتے ہیں نہ 4 اپریل ۔
گزشتہ 42 سال سے آج تک قوم یہ ہی پوچھتی رہی ہی ہے آج بھی پوچھتی ہے اور پوچھتی ہی رہے گی کہ بھٹو سے انصاف کب ہوگا ۔جیسے جیسے شعور پختہ ہوگا یہ ہی پوچھا جائے گا کہ بھٹو سے انصاف کیوں نہیں ہوتا ؟ مولانا ابوالکلام آزاد نےکئی دہائیاں قبل فرمایا تھا کہ تاریخ کی ہر ناانصافی عدالت کی دہلیز پر ہوئی ہے ، قوم کا منصفوں سے یہ شکوہ ہے اور رہے گا کہ بھٹوز سے انصاف کیوں نہیں ہوتا ؟ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے قاتلوں کو سزا نہیں ہوئی ۔ انصاف پر انسانوں کا قرض بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے ۔
۔یہ بھی پڑھیں:
لیڈر جنم لیتے ہیں ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
شاعر اور انقلابی کا جنم۔۔۔ نذیر ڈھوکی
نیب یا اغوا برائے تاوان کا گینگ ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
ڈر گئے، ہل گئے، رُل گئے، جعلی کپتان ۔۔۔نذیر ڈھوکی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر