عثمان غازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے یوں تو کئی دھڑے ہیں تاہم دو نمایاں اور مضبوط ترین دھڑوں میں سے ایک دھڑا عمران خان کا حامی ہے اور دوسرا میاں نواز شریف کا ہمنوا ہے۔۔ اور ان دو دھڑوں کے درمیان تنازع کو اینٹی اسٹبلشمنٹ سمجھنا دراصل اینٹی اسٹبلشمنٹ جدوجہد کے ساتھ اب تک کا ہونے والا سب سے بڑا مذاق ہے۔
عمران خان کو بعینہی انہی خطوط پر لانچ کیا گیا کہ جس طرح میاں نواز شریف لانچ ہوئے، پاکستانی سیاست اتنی ٹیڑھی ہے کہ اگلے 20 سالوں میں اگر خدانخواستہ عمران خان سروائیو کرگیا تو اسے بھی اسٹبلشمنٹ کی آپس کی لڑائی میں ان حالات سے سامنا کرنا پڑے گا کہ کل کو یہ بھی اینٹی اسٹبلشمنٹ جدوجہد کا پیامبر بن کر کھڑا ہوگا جبکہ یہ محض دو دھڑوں کا ایک اختلاف ہوگا۔
میاں نواز شریف اور عمران خان کے اسٹبلشمنٹ کے دو مختلف دھڑوں کا نمائندہ ہونے کی سب سے بڑئ دلیل ان دونوں کی جانب سے مخصوص حد عبور نہ کرنا ہے، دنیا ادھر سے ادھر ہوجائے، مسلم لیگ ن لاپتہ افراد، مذہبی انتہاپسندوں اور خارجہ پالیسی میں مداخلت سے متعلق اس طرز کے دیگر پالیسی معاملات پر اسٹبلشمنٹ کے مخالف کھڑی نہیں ہوگی، ن لیگ کا اختلاف صرف اقتدار میں اس کے مخالف دھڑے کی مخالفت تک برقرار رہے گا اور یہی عمران خان کا حال ہے۔
مسلم لیگ ن کی جانب سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ووٹ نواز شریف کو ملتا ہے جبکہ درحقیقت ن لیگ کے مینڈیٹ کا ایک بڑا حصہ نواز شریف کے سہارے بننے والے ان اسٹبلشمنٹ نواز امیدواروں کو ملتا ہے جو الیکٹبلز کہلاتے ہیں، اگر اسٹبلشمنٹ کے دو دھڑوں کی رسہ کشی میں یہ الیکٹبلز ادھر سے ادھر ہوئے تو ن لیگ کی عمارت اگلے دن زمین بوس ہوسکتی ہے اور ن لیگ کو اس سنگین معاملے کا اچھی طرح اندازہ ہے لہذا شہباز شریف کی جانب سے پرو اسٹبلشمنٹ اقدامات انہی الیکٹبلز کو مطمئن کرنے کے لئے ہیں جسے نواز شریف کی مکمل سرپرستی حاصل ہے جبکہ ن لیگ کی ایک مخصوص کلاس اسے پارٹی میں بیانئے کی جنگ کہتی ہے۔
اقتدار کے لئے ڈیل نہ ہونے پر کسی جرنیل کو نام لے لے کر للکارنا اور اسٹبلشمنٹ کی کسی پالیسی کی مخالفت نہ کرنا کوئی اینٹی اسٹبلشمنٹ جدوجہد نہیں ہے، حقیقی اینٹی اسٹبلشمنٹ جدوجہد وہ ہے کہ کب آپ اسٹبلشمنٹ کی کسی بھی پالیسی کے خلاف صف بندی کرتے ہیں اور اسی صف بندی سے ان کے مفادات کو زک پہنچتی ہے، اگر مفادات کو زک پہنچائے بغیر اپنی ڈیل کے لئے آپ جرنیلوں کے نام لے کر شور مچاتے رہیں گے تو یہ ایک اچھا تماشہ ضرور ہوسکتا ہے مگر اسے اینٹی اسٹبلشمنٹ جدوجہد قرار دینا شاید تھوڑی سی ناانصافی ہوگی۔
یہ بھی پڑھیے:
پاکستان میں راجہ داہر اور محمد بن قاسم پر بحث خوش آئندہے۔۔۔ عثمان غازی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ