فضیل اشرف قیصرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گجرات کو آپ بھلے رومان کی سرزمین کہیں،حُسن و عشق کا علاقہ پکاریں یا پھر بابوں اور ولائتی بابؤں کا شہر مگر ایک غیر گجراتی بلوچ کے لیے گجرات بس سوہنڑی کا شہر تھا اور رہے گا۔سوہنڑی ،شاہ لطیف بھٹائ کی سوہنڑی کہ شاہ لطیف نے سوہنڑی کو عزم و ہمت کا استعارہ جانتے ہوۓ ہمیں کسی کے نقش قدم کا درس دیا تو وہ سوہنڑی ہی ہے۔ہم بلوچ شاہ سائیں کے ذرا زیادہ یوں بھی معتقد ٹہرے کہ شاہ سائیں نے ہمارے پُنوں کے ساتھ کم از کم وہ سلوک نہیں کیا جو ہاشم شاہ نے روا رکھا۔سوہنڑی کو شاہ سائیں نے جن خصوصیات کے تحت دل کے قریب رکھا وہ سوہنڑی کی محنت،تخیل،تحریک ،ترتیب ،زبان اور محبت تھیں۔سو بلوچ کے لیے گجرات کی شناخت گجرات کا سوہنڑی کا شہر ہونا ہی کافی ہے یا پھر نواب اکبر خان بگٹی کا یہ اعلان کہ چوہدری ظہور الہی کو گجرات میں کھبی تحفظ کا مسلہ پیش آیا تو ڈیرہ بگٹی کے بگٹی اور پہاڑ دونوں انکی جان پہ قربان۔۔
ایک دہائ ہونے کو آئ کہ گجرات شہر میں بسیرا ہے مگر ہر بار،بار بار ایک بات جامعہ کی حدود میں سننے کو ملی کہ جامعہ کو کوئ بھی فرد اپنانے کو تیار نہیں۔سوال ضرور اہم ہے مگر کیا کھبی جامعہ نے بھی کسی کو اپنایا؟سو اپنائیت بحر حال دوطرفہ ہوتی ہے،ہاں محبت کی بات اور ہے۔
میرا عقیدہ ہے کہ شہر بھی دل رکھتے ہیں۔بھانت بھانت کے دل،کھلے دل،تنگ دل،بزدل،بڑے دل،کشادہ دل اور چھوٹے دل۔بڑے دل والے چھوٹے شہر باوجود اپنے کم رقبے کے کئ لوگوں اور کئ اقوام کو سمو لیتے ہیں جبکہ چھوٹے دل والے بڑے شہروں کو دیکھا تو جانا کہ انکا دامن وسعت سے عاری اور تنگ ہے۔
گجرات بڑے دل والا ایک ایسا ہی شہر ہے کہ جہاں ملنے کو “باقاعدہ نژاد،حال مقیم اور پلٹ “ قسم کے لوگ بھی مل جائیں گے اور نہ ملنے کی صورت ہو تو انجانی صورت ہی آپ پر پرونڑا ،پردیسی اور مہمان کا ٹھپہ ثبت کر دے گی۔یہ تفاوت خدا معلوم قدرتی ہے یا مصنوعی مگر اس تفاوت کا سدِ باب ایک اکسیر اور مجرب نسخے کی صورت “مرقعِ گجرات “میں پنہاں ہے۔
آپ دس سال میں کیا جان پائیں کہ آج کا انسان مشینی انسان ہے۔نہ اسے فرصت نہ آپکے پاس وقت کہ ہر جانب دستِ انسان میں موجود بٹیرامسلسل جس چیز کو کھاۓ جا رہا ہے وہ رسمِ حال احوال ہے اور بلوچ سے جب تک حال احوال نہ ہو،نہ وہ آپ پر کُھلتا ہے اور نہ وہ آپکو خود پہ کُھلنے دیتا ہے۔کچھ انہی حالات میں ایک دہائ گزر گئ۔۔
بھلا ہو “مرقع گجرات “کا کہ ہمیں گجرات کے حال کا علم ہوا۔وگرنہ یہی علم تھا کہ گجرات پنکھوں،پیسوں اور چوہدریوں کا شہر ہے۔
بندہ خدا گجرات کی تاریخ کیا ہے؟اسکے ثقافتی رنگ کیا ہیں؟”کرما آلے او،موتیاں آلے او کا مطلب کیا ہے؟سوہنڑی کی املا سوہنی ہے یا سوہنڑی؟چناب عاشقاں کیوں ہے؟شاہ جہانگیر کے مقام پہ انتڑیاں ہی دفن ہیں یا شاہ جہانگیز کوئ اور ہے؟گجرات میں اتنے شادی ہال کیوں ہیں؟پنڈوں کے ناموں کی بنیاد کیا ہے،ججے،سورج،اجنالہ،ابیالہ،مدینہ،رام طلائ،سوہنڑی دا بازار بھلا کیسے نام ہیں؟دو دریاؤں کے
بیچ آباد شہر میں کوئ نہر کیوں موجود نہیں؟گجراتی باہر کیوں جاتے ہیں؟
کھٹانے،کسانے اور چڑیاولہ کی پھکی کیا ہے؟گرودوارے کیا ہوۓ؟مندر کہاں گۓ؟ڈھکی کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟کِنگ نام کا ساز کس لکڑی سے بنتا ہے؟قصور وند کون ہے ؟دوبئ پکوڑا شاپ اور فرینکفرٹ برگر گجرات میں کیوں ہیں؟
کسی کے پاس کوئ جواب کہ بلوچ ماما تو ایسے سوال ہی پوچھتا ہے کہ یہ اسکے حال احوال کی بنیاد ہیں۔جب حال احوال ہی نہیں تو پھر بھلا کیسے پیدا ہو اپنائیت؟اپنائیت تھبی پیدا ہوتی ہے کہ جب آپکو روشناس کرایا جاۓ کہ میاں جہاں مقیم ہو وہاں کا حال یہ ہے۔
سو “مرقع گجرات “وہ حال ہے جو میزبان ،مہمان کو دیتا ہے،مقیم مسافر کو بتاتا ہے اور دیسی پردیسی سے اس لیےشئیر کرتا ہے کہ اسے گجرات سے اپنائیت ہو۔اس حال میں کہیں غنیمت کنجاہی کا نوحہ ہے تو کہیں پنجاب کی تاریخی مزاحمت کا تفاخر،کہیں سوہنڑی کا غم ہے تو کہیں محمد علی کے ماہئیے،کہیں تدریس کا حال ہے اور کہیں تخریب کا۔غرض شیخ رشید ایک گائیڈ بن کے اپنے قاری کی راہنمائ کرتے ہوے اسے گجرات کی گلیوں ،پگڈنڈیوں،سڑکوں،چوراہوں،بیٹھکوں،بازاروں،شہر یاروں،مجاوروں،مزاروں،دلداروں اور کمہاروں کی زیارت کرواتے چلتے ہیں۔قاری سوال کرے تو جواب بھی دیتے ہیں اور تبصرہ کرتے ہوۓ یہ شکوہ بھی قائم رکھتے ہیں کہ ابھی بہت کام باقی ہے کہ تاریخ کو کہیں عقیدت کھا گئ تو کہیں تفاخر۔اسی گم گشتہ تاریخ میں سے جو مستند مل پایا ،جسے فنِ تحقیق نے حق جانا اورجہاں قلم خود بخود چلا وہ قاری تک پہنچا دیا کہ اپنی مٹی حق مانگتی ہے سو وہ حق ادا کیا ۔جو چُوک گیا وہ پھر سہی کہ ابھی نہ گجرات ختم ہوا اور نہ مٹی کا فرض سو گجرات قائم،قلم قائم،میں اور تم یعنی ہم قائم باقی صدا رہے نام اللہ کا۔
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی