نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

باباگورونانک جی کا جنم دن||ظہور دھریجہ

بابا گورونانک نے کہا تھا کہ ’’ محمد نہ ہووے تے بھگتی نئیں ہوندی‘‘ ۔ بلاشبہ بابا گورونانک نے امن کا پیغام دیا ۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ حکومت کو بابا گورونانک کی طرح پرہلاد کے ماننے والوں کو بھی اس طرح کی سہولتیں دینی چاہئیں۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بابا گورونانک جی کے 552ویں جنم دن کی تقریبات کا سلسلہ جاری ہے، کرتار پور راہداری بھی 22ماہ بعد کھل گئی ، جبکہ واہگہ بارڈر کے راستے بھی سکھ یاتریوں کی آمد جاری ہے ،ہندوستان سمیت دنیا بھر سے سکھ یاتری مذہبی رسومات کی ادائیگی کیلئے پاکستان پہنچ رہے ہیں، سکھ یاتری لاہور، ننکانہ صاحب، حسن ابدال اور کرتار پور میں مذہبی مقامات پر عبادات میں مصروف ہیں، وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار نے سکھ یاتریوں کو خوش آمدید کرتے ہوئے کہا کہ بابا گورونانک کا جنم دن خوشیوںکا تہوار ہے، بابا گورونانک نے امن و آشتی ، اخوت ،محبت و بھائی چارے کے پیغام کو عام کیا، سکھ یاتریوں کے وفد میں بھارتی یاتریوں کے ہمراہ بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ چرن جیت سنگھ چنی بھی ہمراہ تھے۔
بابا گورونانک نے کہا تھا کہ ’’ محمد نہ ہووے تے بھگتی نئیں ہوندی‘‘ ۔ بلاشبہ بابا گورونانک نے امن کا پیغام دیا ۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ حکومت کو بابا گورونانک کی طرح پرہلاد کے ماننے والوں کو بھی اس طرح کی سہولتیں دینی چاہئیں۔ سکھ مذہب کے بانی گرونانک 1469ء میں موضع رائے تلونڈی موجودہ ننکانہ کے ایک کھتری گھرانے میں پیدا ہوئے ۔والد کا نام کلیان چند عرف کالوجی تھا، انہیں دنیاوی کاروباری سے کوئی دلچسپی نہ تھی ، گیان دھیان میں مصروف رہتے تھے ، ہندی سنسکرت اور فارسی کی تعلیم مختلف اساتذہ سے حاصل کی ۔ زندگی کا ابتدائی دور سلطان پور کے رئیس دولت خان لودھی کے پاس گزارا،
گورداسپور کے ایک کھتری سری مول چند کی بیٹی سے شادی کی ، دوبیٹے بھی ہوئے ،سری چند ولات 1494اور مکھی چند ولادت 1496لیکن پھر بھی دنیا میں دل نہ لگا۔ 1497ء میں ترک دنیا کر کے تین رفیقیوں کے ساتھ سیر و سیاحت شروع کر دی ۔ مختلف علاقوں اور ملکوں میں پھر، جن کے متعلق معتبر اور صحیح تفصیلات نہیں ملتیں ۔ 1504ء میں دریائے راوی کے کنارے ایک آبادی کی بنیاد رکھی جو کرتارپور کے نام سے مشہور ہوئی جو اب ضلع سیالکوٹ میں ہے۔ زندگی کے آخری دور میں اسی جگہ مقیم ہو گئے اور یہیں وفات پائی۔ اس مقام کو دربار صاحب کرتار پور یا ڈیرہ بابا نانک کہتے ہیں ، اس نام کا ایک قصبہ جو گوروار جن سے منسوب ہے ، ضلع جالندھر میں ہے ۔
گرونانک نے 1539ء میں بادشاہ ہمایوں کے عہد میں وفات پائی ۔ سکھوں کا مشہور گوردوارہ جو حسن ابدال کے مقام پر ہے ، میں ایک پتھر پر گرو نانک کے دائیں ہاتھ کا پنجہ لگا ہوا ہے۔ یہ پتھر ایک گوردوارے میں محفوظ ہے جو سکھا جرنیل سرداری ہری سنگھ نے 1823ء میں تعمیر کرایا ۔ 1920ء تک گوردوارہ ہندو مہنتوں کے قبضے میں تھا ۔ سکھوں کی احتجاجی تحریک کے بعد سکھ پنتھ کے زیر انتظام آ گیا۔
26 نومبر 1920ء کو سرومنی گوردوارہ پر بندھک کمیٹی امرتسر نے گوردوارہ پنجہ صاحب کمیٹی قائم کر دی، اس کمیٹی کے تحت گوردوارہ کی تعمیر نو کی گئی۔ اس عمارت میں کوئی اینٹ بھی 1921ء سے پہلے کی نہیں ۔
ہر سال یہاں بیساکھی کا میلہ ہوتا ہے ۔ آزادی کے بعد یہ گوردوارہ محکمہ متروکہ وقف املاک کی حفاظت میں آ گیا، یہاں ہر سال 11 تا 13 اپریل بیساکھی کا میلہ اب بھی لگتا ہے، سکھ یاتریوں کیلئے ہر ممکن سہولت مہیا کی جاتی ہے۔ گوردوارے کے وسط میں ہری ہر مند، سروور ( تالاب ) پنجہ صاحب ہیں ۔ سروور میں نہانے اور پنجہ صاحب کے سامنے ہاتھ جوڑنے کے سوا تمام مذہبی رسوم ہر مندر میں ادا کی جاتی ہیں ۔آغاز عرضداشت سے ہوتا ہے۔ یہ عرضداشت طویل اور منظوم ہوتی ہے۔ ننکانہ صاحب ضلع شیخوپورہ سے 34 میل اور لاہور سے 55 میل کے فاصلے پر ہے۔
یہ شہر سکھ مت کے بانی گرونانک کی جنم استھان ہے اس لئے سکھوں کیلئے بہت متبر ک ہے ۔یہاں سکھوں کے اور بھی گوردوارے ہیں ، یہاں دنیا بھر کے سکھ یاتری خصوصاً گورنانک کے جنم دن کے موقع پر آتے ہیں ۔ یہاں گورونانک بازار، انارکلی بازار، ریل بازار اور تنگ بازار شہر کے اہم تجارتی مراکز ہیں ۔ بابا گرو نانک ایک درویش تھے ، ان کی تعلیمات انسان دوستی کے حوالے سے تھیں ، وہ ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے مگر سوچ کے لحاظ سے مسلمانوں کے قریب تھے۔ وہ انسانوں سے محبت کرتے تھے اور ان کا طریقہ کار صوفیانہ تھا ، وہ عدم تشدد کے پیروکار تھے اور مذہبی منافرت نام کی کوئی چیز ان میں نہ تھی ۔
پیدائش سے وفات تک ان کے حالات جیسا کہ تلونڈی میں پیدائش، بچپن کے دن، تعلیم ، بچپن کی مشغولیت ، بغداد ‘ سری لنکا اور دوسرے علاقوں کے حالات پڑھتے ہیں تو وہ سچے توحید پرست اور خدا کو ماننے والے نظر آتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے بابا گرونانک کے حضور اشعار پیش کرتے ہوئے کہا : پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے بتکدہ پھر بعد مدت کے مگر روشن ہوا نور ابراہیم سے آذر کا گھر روشن ہوا یہ بات بھی نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ سکھ اپنی پگڑی اور زبان کو ثقافتی نہیں بلکہ مذہبی کہتے ہیں اور یہ بھی کہ وہ ثقافتی طور پر اپنے صوبے کے نام پنجاب پر اکتفا نہیں کر رہے بلکہ وہ مذہبی طور پر خالصتان کی تحریک چلا رہے ہیں جو کہ بھارت کے لئے خطرے کا الارم ہے، جبکہ دنیا میں امن انسانوں کے درمیان بھائی چارے اور ثقافتی ہم آہنگی کے ذریعے ممکن ہے ۔ صوفی سب سے بڑا موحد اور توحید پرست ہوتا ہے کہ اسے ہر شئے میں خالق حقیقی کا ظہور نظر آتا ہے ۔ آج انسانیت کے اسی پیغام کی ضرورت ہے ،سرائیکی شاعر خواجہ غلام فریدؒ نے فرمایا : رکھ تصدیق نہ تھی آوارہ کعبہ قبلہ دیر دوارہ مسجد مندر ہکڑو نور

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author