ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادھیڑ عمر کا ایک مرد اپنی ہمکار جوان لڑکی سے بلاوجہ اظہار محبت کرتا ہے۔ لڑکی کے چہرے پر بل پڑتا ہے، وہ کہتی ہے کہ بکواس بات ہے۔ مرد پوچھتا ہے کونسی بات بکواس ہے؟ لڑکی کہتی یہی محبت والی۔ مرد محبت پر پورا لیکچر دے ڈالتا ہے۔ لڑکی مسکرانے لگتی ہے۔
مرد نہ صرف اس کو کام میں مدد کرتا رہتا ہے بلکہ اس کی لیاقت اور اہلیت کی بھی مسلسل تعریف کرتا رہتا ہے۔ وہ اسے پھر کہتا ہے کہ "میں تم سے پیار کرتا ہوں” اور اکثر کہتا ہے۔ کبھی تو وہ دوسرے اہلکاروں کے سامنے اعتراف کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔ اسے لڑکی کی آنکھوں میں اپنے لیے پیار کی جھلک دکھائی دینے لگتی ہے پھر سوچتا ہے شاید میرا گمان ہو۔ یہ سلسلہ کئی برس چلتا ہے۔
وہ اچھے دوستوں کی طرح رفیق کار رہے۔ ان میں باہمی تعلق کبھی استوار نہیں ہوا مگر ان کے مابین پرخاش بھی کبھی نہیں رہی۔ لڑکی نے پہلی بار کے بعد اس کے اظہار محبت کو پھر کبھی بکواس بات نہیں کہا۔ مصافحہ کرنا تو ان کے معمول میں شامل تھا ہی ساتھ ہی ان میں سے کوئی جب بھی کسی طویل رخصت سے لوٹتا تو وہ سبھی کے سامنے ایک دوسرے کے گلے بھی لگ جاتے تھے۔ جبکہ کوئی اور ہمکار کسی بھی ہمکار کے گلے نہیں لگتا دکھائی دیا۔ آج بھی ان دونوں کا دوستانہ تعلق برقرار ہے۔
میں سمجھنا چاہتا ہوں کہ کیا یہ سب جنسی حوالے سے ہراساں کیے جانے کے زمرے میں آتا ہے؟ اگر ہاں تو کیوں اور کیسے؟ ان دونوں کو اعتراض نہیں تو آپ خدائی خدمت گاروں کو کیوں اعتراض ہو؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں کیونکہ ہم میں سے کسی نے بھی اس لڑکی سے نہیں پوچھا البتہ مرد کے ذہن میں کبھی کبھار کچوکا ہوتا ہے کہ کہیں میں نے اسے ماضی میں جنسی طور پر ہراساں تو نہیں کیا تھا؟ اگر کیا تھا تو یہ بات محبت کی نفی ہے۔ کبھی سوچتا ہے کہ میں نے تو یونہی کہہ دیا تھا کہ پیار ہے۔ پھر استقامت اختیار کر لی۔ انجام کار پیار واقعی محسوس ہونے لگا۔ اس نے اسے کبھی بیاہ کی پیشکش نہیں کی بلکہ کہا اگر ممکن ہوتا بھی تو میں تم سے بیاہ کرکے تمہارے ساتھ اپنی محبت کو پامال کرنے کا سوچتا بھی ناں۔ وہ ہنس دیتی، شاید سمجھتی ہو کہ اس کے دماغ کا کوئی پیچ ڈھیلا ہے۔
جنسی طور پر ہراساں ( میں اختصار کی خاطر بھی جنسی ہراسانی کی اصطلاح استعمال کرنے سے قاصر ہوں ) کیے جانے کو آنکنا بعض اوقات خاصا دشوار ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر تب جب دونوں فریق ایک دوسرے سے متعلق کسی نہ کسی حوالے سے برے جذبات نہ رکھتے ہوں۔ ان کے بیچ کوئی ایک فریق اگر ان تمام افعال و اقوال کو جو عرف عام میں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے زمرے میں آتے ہیں، یا ان میں سے کچھ کا استعمال کرے تو شاید وہ ہراساں کیے جانے کی مد میں نہ آئے اور اگر شروع میں آئے بھی تو وقت گذرنے کے ساتھ اس فعل یا قول کا مذموم پہلو مندمل ہو جائے۔
جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کا غلغلہ ریاستہائے متحدہ سے اٹھا تھا کیونکہ انسانی رویوں کی آزادی سے متعلق تحریکیں وہیں سے اٹھتی رہی ہیں پھر تیزی سے صنعتی ترقی کے سبب مردوں اور عورتوں میں اختلاط باہمی بھی وہیں سب سے زیادہ بڑھا تھا جس کی وجہ سے خواتین کو مردوں کے ہاتھوں زک اٹھانی پڑی تھی۔ مردوں کی زبان درازی کے ساتھ ساتھ دست درازی میں بھی اضافہ ہوا تھا۔ امریکہ میں اس ضمن میں پہلا لفظ Abuse استعمال ہوا تھا جو بالآخر اصطلاح بن گئی۔ ظاہر ہے اس کا مطلب غلط استعمال ہے۔ یعنی رویوں اور اقوال کا غلط استعمال۔
بات اس سے بھی آگے کی کرنی تھی چنانچہ ایسے افعال اور اقوال سے جو خوف و دہشت طاری ہوتی ہے، جس طرح کراہت، نفرت اور رنجش کی لہریں اٹھتی ہیں، جس طرح فعل و قول کے استعمال سے قبل ہی ایسے فریق کو دیکھ کر جس سے اس کی توقع کی جا رہی ہو انسان خاص طور پر بچوں، بچیوں، لڑکیوں اور عورتوں کے رونگٹے کھڑے ہونے لگتے ہیں اس کے لیے ہراساں کیے جانے یعنی Harassment کا لفظ استعمال کیا گیا جو اب باقاعدہ قانونی اصطلاح بن چکی ہے۔
لڑکوں اور مردوں پر لڑکیوں اور خواتین کی جانب سے فقرے کسے جانے، ان کو چھونے، ان کو سہلانے، ان کو زبردستی گلے لگانے کے واقعات بھی ہوتے ہیں۔ لڑکوں کے لیے شروع میں ہراساں ہونا فطری ہے مگر وہ جلد تلذذ کی جانب مائل ہو جاتے ہیں۔ مرد تو ظاہر ہے اگر ان کی ہم عمر یا کچھ بڑی یا چھوٹی کی جانب سے ایسا ہو تو اس کو ہراساں کیا جانا سمجھیں گے ہی نہیں البتہ اگر عمر سے دوگنی عمر کی خاتون ایسا کرے گی تو اغلب ہے کہ الجھن ہو۔
تو کیا جنسی طور پر ہراساں کیا جانا صرف خواتین کے لیے ہی مخصوص ہے اور تب ہی جب پیشرفت کرنے والا مرد اسے پسند نہ ہو یعنی عمر میں بڑا ہو، مجبوری کا فائدہ اٹھا رہا ہو، ویسے ہی ناپسند ہو، عہدے رتبے تعلیم میں کم ہو وغیرہ وغیرہ۔ یا ہراساں مرد بھی ہوتے ہیں قانونی طور پر۔
ہمارے دانشوروں کے ایک طبقے نے عورت کو اتنا ہی مجبور کیوں سمجھ لیا ہے۔ ہراساں کیے جانے کے واقعات ہوتے ضرور ہیں لیکن نہ اتنے زیادہ ہوتے ہیں نہ اتنے تواتر سے۔ البتہ سڑکوں پر یہ واقعات زیادہ ہیں جس کی وجہ تربیت، تعلیم و تہذیب کا فقدان ہے۔ دفاتر میں ایسا ہوتا ہے جہاں برا بھی مانا جا سکتا ہے اور تعلق پروان بھی چڑھ جاتے ہیں۔
گھروں میں ایسا ہے۔ اس کی وجہ جنسی گھٹن اور ہماری روایات ہیں۔ ایسے زیادتیاں بچوں اور بچیوں کے ساتھ ہوتی ہیں اور قریبی لوگوں کی جانب سے۔ یہ کرنے والے کا ذہنی مرض بھی ہو سکتا ہے اور کسی کے بڑے کے خلاف انتقامی کارروائی بھی۔ وجہ جو بھی ہو ایسے افعال و اقوال نہ صرف یہ کہ قابل مذمت ہیں بلکہ ان کی سختی سے بیخ کنی بھی کی جانی چاہیے۔
ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ہالی ووڈ کے معروف پروڈیوسر کے اعمال آشکار ہوں تو بریکنگ نیوز کی طرح معاملہ اچھالا جانے لگے اور کچھ عرصے بعد بھول جائیں۔ جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کا عمل مسلسل ہے اور مسلسل رہے گا، اس کے خلاف مسلسل آواز اٹھائے جانے کی ضرورت ہے۔ انتہائی آزاد معاشروں میں جہاں قوانین نہ صرف سخت ہیں بلکہ ان پر عمل درآمد بھی کیا جاتا ہے جیسے امریکہ وہاں یہ واقعات عام ہیں۔ بہت زیادہ کی وہاں بھی شکایت نہیں ہوتی۔
ہمیں یہ بھی نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہمارے ملک میں امریکہ کی طرح چٹ سے قوانین بنیں گے اور پٹ سے ان پر عمل درآمد ہونا شروع ہو جائے گا۔ تعلیم و تہذیب کو رواج دیے جانے کی خاطر پہلے ملک کی معیشت کو بہتر کیے جانے کی ضرورت ہے۔ لوگوں میں جرات اظہار پیدا ہو اس کے لیے جمہوری عمل کے مستحکم ہونے کی آرزو ہونی چاہیے۔ ساتھ ہی کوئی بھی بات کہنے سے پہلے جیسے "جنسی طور پر ہراساں کیا جانا” کی سماجی، عمرانیاتی، قانونی حوالوں سے وضاحت کیے جانے کی ضرورت ہے۔ ڈنڈا لے کر پیچھے نہ پڑ جائیں کہ کہیں آپ محبت کو روکنے کے عمل میں شریک ہو کر لبرل یا ترقی پسند ہونے کی بجائے روایت دوست یا رجعت پسندوں میں شامل نہ ہو جائیں۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ