ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکثر لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ یورپ میں زندگی آسان ہوتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ بہت اچھی آمدنی کے بغیر کہیں بھی زندگی بہت اچھی نہیں ہوتی۔ کئی پہلووں سے زندگی اپنے ملک میں اچھی ہوتی ہے اور کچھ پہلووں سے کسی اور ملک میں۔ پھر یہ کہ زندگی کو اچھا سمجھنے کے پیمانے کچھ تو عمرانی اداروں نے طے کیے ہوتے ہیں جیسے معیار زندگی وغیرہ اور کچھ خالصتا” شخصی یا نجی ہوتے ہیں، وہ پیمانے بھی آپ کی اپنے ملک میں زندگی کے ساتھ موازنے اور آپ کی سوچ کی نوعیت پر مبنی ہو سکتے ہیں البتہ قناعت یا مجبوری کو شکریہ کہنے سے نہ کسی نے روکا ہے اور نہ کوئی اس سے خاص وقت تک یا کبھی نہیں نکل سکتا ہے۔
جس میں میں فرش پہ بچھے عام سے کارپٹ پہ فوم کا عام سا گدا ڈال کے بستر بنائے بیٹھا لیپ ٹاپ گود میں لیے ٹائپ کر رہا ہوں یہ ایک کمرے کا مکان ہے۔ جی ہاں ایک ہی کمرہ جس میں داخل ہوتے ہی پانچ ساڑھے پانچ مربع میٹر کی ڈیوڑھی یا دہلیز ہے۔ سامنے کمرے کا دروازہ ہے، ڈیڑھ دو میٹر کی چھوٹی سی راہدری ہے جو کوئی آٹھ مربع میٹر کے باورچی خانے میں کھلتی ہے۔ ڈیوڑھی راہداری اور باورچی خانے کے درمیان غسل خانہ اور بیت الخلاء ہے۔
کمرے میں ایک طرف، رکھی دروازوں والی تین فٹ اونچی الماری نما شے کے اوپر گدے اور رضائیاں رکھی ہیں، جن کو کپڑے سے ڈھانپا ہوا ہے جو کچھ دیر میں استعمال میں لے آئے جائیں گے۔ اس کے دوسری جانب زمین پر ایک سپرنگوں والا میٹرس ہے، جس پر بستر کیا ہوا ہے۔ کمرے کے دروازے کے دوسری جانب ایک گہرے بھورے رنگ کی الماری ہے۔ جس کے پہلے پٹ کے پیچھے کپڑے ٹانگے جانے کی جگہ ہے۔ درمیان میں شیشے کے در والی الماری جس میں بچے کے کھلونے بھرے دکھائی دے رہے ہیں۔ دوسرے پٹ کے پیچھے خانوں والی الماری ہے، جن میں استری شدہ کپڑے رکھے گئے بیں۔ پھر ایک ہلکے بھورے رنگ کی اونچی الماری ہے، جس کے تین تختوں میں سے ایک اس لیے بند نہیں ہوتا کہ اس میں تھیلے ٹھنسے ہیں، دوسرا ویسے ہی بند نہیں ہوتا۔ شکر ہے تیسرا بند ہو جاتا ہے۔ پھر بالکونی کو کھلنے والا دروازہ ہے جو کبھی کبھار ہوا کے زور سے رات گئے کھل جاتا ہے اور سرد ہوا کمرے میں در آتی ہے، بالکونی بھی قابل استعمال اور ناقابل استعمال سامان سے اٹی پڑی ہے۔ یہ نینوں الماریاں اس گھر کی مالکہ نے جو اب اس جہان میں نہیں ہے، سوویت یونین کے عہد میں خریدی تھیں۔
بالکونی کے دروازے کے ساتھ نئی ٹرالی میز پر نیا ایل ای ڈی ٹی وی رکھا ہے، اس کے دوسری جانب ایک میز ہے، جس کے ساتھ کونے میں ایک نیا بک ریک لے کے اٹکایا گیا ہے۔ اس میز پر بڑا بچہ سکول کا کام کرتا ہے۔ بچی فولڈیبل میز اور پلاسٹک کی کرسی استعمال کرتی ہے۔ جی ہاں اس ایک کمرے کے گھر میں تین بچوں اور میاں بیوی پر مشتمل ہم پانچ افراد کا کنبہ رہتا ہے۔ اس گھر کا کرایہ پانی بجلی اور گیس کے بلوں کے علاوہ پاکستان کے 35000 روپے کے برابر ہے، اس لیے کہ گھر میں کچھ بھی نیا نہیں اور مالک شہر سے باہر رہتا ہے۔ اسی طرح کا بہتر گھر اس سے دوگنا نہیں تو کم از کم ڈیڑھ گنا زیادہ کرائے پر دستیاب ہو سکتا ہے۔ اس گھر کے کرائے کے برابر میری پنشن ہے۔
باقی کے لیے اندوختہ کا سہارا لینا پڑتا ہے یا پھر اہلیہ کی تنخواہ کا جو چھوٹے بچوں کی وجہ سے بارہ گھنٹے کی شبینہ ڈیوٹی پر ہوتی ہے اور اکثر کئی بار تکان، نیند یا ضرورت کے سبب نہ جانے کی وجہ سے کم ہو جاتی ہے۔ ویسے بھی چھوٹے بچے کی وجہ سے اس نے یہ کام کوئئی آٹھ ماہ پہلے شروع کیا تھا لیکن چونکہ بچوں کی تعلیم مفت ہے، ہم سب کا علاج مفت ہے، پبلک ٹرانسپورٹ اچھی اور باکفایت ہے، ماحول صاف ستھرا ہے، بچوں کے کھیلنے کے چھوٹے چھوٹے پارک جا بجا ہیں۔ مفت سیر کے مقامات ہیں۔ لوگ مہذب ہیں، رشوت نہیں ہے، سرکاری کام ہو جاتے ہیں چنانچہ ہم بہت مطمئن نہ سہی لیکن بے سکون بھی نہیں ہیں۔
( نشر مکرر )
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ