فضیل اشرف قیصرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افغانستان کی لاش پہ انّا للّہ پڑھ لیا ہو تو اے مہربان ایک نظر ادھر کو بھی کہ افغانستان کی موسیقی کا پُرسہ ابھی باقی ہے۔افغانستان،پشتونوں،ازبکوں،تاجکوں ،بلوچوں اور ہزاروں کا افغانستان۔افغانستان کے ہنر مندوں نے ہمارے کانوں میں وہ رس گھولے ہیں کہ اور نہ سہی مگر ہمارے بے سُرے کانوں کو سُرشناس ضرور بنا دیا۔موسیقی تو یوں فتاوی عالمگیری کے بعد کہیں زمین کی اتھاہ گہرائیوں میں دفن ہونے والی تھی مگر بھلا ہو طوائفوں،مغنیوں ،شاعروں اور موسیقاروں کا کہ موسیقار خود دفن ہو گۓ مگر موسیقی دفن نہ ہو سکی۔۔۔۔
افغان موسیقی کا ہر رنگ امر رنگ ہے۔یہ امر رنگ امر انسانوں، ڈاکٹر صادق فطرت کو ناشناس بنا گیا تو کہیں وزیر اعظم کے فرزند کو افغان موسیقی کے گھر “خرابات” لے جا کر اُسےامر کر گیا۔اس فرزند کو دنیا احمد ظاہر کے نام سے جانتی ہے۔
یہی موسیقی تھی کہ موسیقی کے استادوں نے اپنے نام بدل کر نئ نواز،ترانہ ساز،ناشناس،شیدا،ساربان،سرمست،بیلتون،ہنگامہ،سارہنگ،ہمہ آہنگ اور برشنا رکھ لیے۔یہی موسیقی تھی کہ دولت قراباغی کو قتل کر دیا گیا،احمد ظاہر کو صرف تینتیس سال کی عمر میں ایک مشکوک کار ایکسیڈنٹ میں شہید کروا دیا گیا اور یہی موسیقی ہی تھی کہ نئ نواز جیسے انسان کی خلق پارٹی کی حکومت نےجان لے لی۔
افغان موسیقی کو نیا اسلوب دینے والا ساربان کوئٹہ کی گلیوں کی خاک چھانتے ہوے کسمپرسی میں دنیا سے رخصت ہوا۔بھلا ہو کافروں کا کہ ساربان کی لاش کوئٹہ سے کابل لے گۓ اور سرکاری اعزاز کے ساتھ کابل میں مدفن ساربان بنا دیا۔خدائ ساز کہلانے والے “دلربا” کے وارث استاد معزالدین کے دلربا کو انکی آنکھوں کے سامنے جب طالبان نے توڑا تو وہ فقط اتنا کہہ سکے کہ یہ میرے والد گرامی کا تیار کردہ ساز تھا اور میں اس ساز کو جاننے اور بجانے والا افغانستان کا آخری آدمی ہوں۔مگر دلربا اہلِ دل کے ہاتھ نہیں سنگدلوں کے ہاتھ تھا سو نہ بچ پایا۔
افغان موسیقی کے تین بنیادی رنگ نہ پہلے پھیکے پڑے اور نہ اب پڑیں گے ۔لوگری،قطاغنی اور قرصک افغان موسیقی کے وہ رنگ ہیں کہ رہے نام اللہ کا۔انہی رنگوں میں افغانوں نے امیر خسرو،ملا جامی،عرفی،بیدل،رومی اور اقبال کو جب گایا تو کون ظالم ہو گا جس کا دل پسیج پسیج نہیں گیا ہو گا کہ طالبان تک نے جب “نشید” پڑھنے کا آغاز کیا تو دُھن استاد ترانہ ساز کی مُستعار لی۔ہمارے گھروں میں صبح شام سنی جانے والی دعا “حسبی ربی جل اللّہ” کی دھن استاد سرمست کی ترتیب دی ہوئ ہے جو انہوں نے تمام مشہور قصیدہِ مولا علی “بیا کہ بوریم بہ مزار” کے لیے ترتیب دی۔
تصوف کا چشتی رنگ ہو،نظامی رنگ یا پھر خسروی۔افغانستان نے اپنا لوہا منوایا۔ہندوستان جیسا ملک جہاں موسیقی کم و بیش عبادت سے عبارت ہے وہاں کے استادوں نے “سُرتاج” کا لقب کسی کو عنایت کیا تو وہ ہندوستانی نہیں بلکہ افغانی تھے۔
شاہ لطیف کا “راگ رانڑو” سلامت،مرید بُلیدی کا تنبورا اور سچو خان کا سارندہ آباد،فرید کا کافی رنگ قائم،بھلے شاہ کا کِنگ موجود اور رحمن بابا کا رباب سلامت کہ ہم انکی پارت میں افغان موسیقی کی بقا مانگتے ہیں۔ہم دعا گو ہیں کہ ہم یوں ہی افغان سُروں سے سرفراز رہیں کہ ،
پیار نہیں ہے جسکو سُر سے!
وہ مورکھ انسان نہیں ہے!
خدا ہمیں مورکھ ہونے سے بچاۓ۔
تو باآواز بلند نعرہ رہے گا،
سُرساز باقی!
افغان باقی!
تنبور باقی!
کہسار باقی!
سُر ساز باقی
افغان باقی!
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی