گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
ڈیرہ میں ہمارے گاٶں کے مکانات تقریبا” سارے کچے بنے ہوۓ تھے۔ مٹی کو آٹے کی طرح گوندھ کر چویڑی بناتے اور دیوار کا ایک وار ڈھائ فٹ چوڑا ڈھائ فٹ اونچا اور لمبائ میں جہاں تک بنا سکتےتھےاور ضرورت ہوتی بنا دیتے۔ایک وار کو سوکھتے ایک ہفتہ تک لگ جاتا پھر دوسرا پھر تیسرا اس طرح ایک دو ماہ کھولہ تیار ہو جاتا۔ کسی درخت خاصکرکھجور کا لمبا تنا گارڈر ہوتا اور اس پر ٹی آئرن کی جگہ لکڑی کی کڑیاں چڑھا دیتے۔چھت کے اوپر کوندر سے بنا ترو وا ۔پھر کانے ۔قطر ۔مٹی ڈال دی جاتی اور آخر میں مٹی میں بھوسہ ملا کر گارا بنتا اور اس گارے سے لپائ ہو جاتی۔فنش۔کمرہ تیار۔ہمارے گھر میں کریٹے کے درخت کی ٹیڑھی میڑھی کڑیاں تھیں۔ یہ درخت کڑوا اور دیمک سے محفوظ ہوتا ہے۔
گھر میں کم ازکم ایک بڑا درخت ہوتا جو ہمارا گرمیوں کا ائر کنڈیشن تھا۔ ٹھنڈی ٹھار چھاں کے نیچے ہم چارپائ پر سوتے اور ہمارے مال مویشی مرغیاں کتے بلیاں تیتر چکور بھی ہمارے ساتھ بیٹھے رہتے۔ درخت کے اے سی کا واپڈا کا بل نہ جرمانہ نہ لوڈشیڈنگ۔درخت پر رنگ برنگے پرندے اور شھد کا چھتہ بھی ہوتا۔ پینگ بھی درخت کا حصہ تھی۔ بس درخت خود ایک جنت کی طرح حَسین دنیا تھی جیسے سلطان باہو نے کہا ہے؎ وچے بیڑے وچے جھیڑے ۔وچے وانجھ مہانے ہو۔۔۔
گاٶں میں سب کچھ اپنا تھا۔غلہ۔دودھ گوشت۔انڈے۔سبزیاں۔پھل۔گڑ۔چکی۔آٹا۔تنور۔دہی لسی۔پیاز کی تنوری روٹی۔ گولیوں اور شوگر کے بغیر نیند۔آرام ۔ایندھن۔پیار محبت۔خلوص۔مہمان نوازی ۔بانسری ۔گیت۔جھمر ۔۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ