نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قحط دیکھا ہے کبھی آپ نے؟||رضاعلی عابدی

صاف ظاہر ہے کہ یہ کچھ اور ہے۔یہ قدرت یا معاشیات کے علم سے نمودارہونے والی صورت حال نہیں ہے۔ اس کے پیچھے کچھ اور کار فرما ہے۔ یہاں نہ طلب کا قصہ ہے نہ رسد کا۔ یہاں نہ افراط زر کا رونا ہے نہ محنت کا۔ ان تمام علتوں کے بعد قدرت بھی اپنی چال بدلنے کو ہے،دنیا کا موسم اپنے تیور بدل رہا ہے۔ اس سال درختوں پر کچھ پھل آئے ہی نہیں۔ ٹھنڈے علاقوں میں موسم گرما کی فصلیں اُگ رہی ہیں، قطبین میں لاکھوں برسوں سے جمی ہوئی برف پگھل رہی ہے۔شہزادہ چارلس پچھلے دنوں یہ کہتے سنے گئے کہ لوگوں کو اپنی زمین سے زیادہ خلا کی فکر ہے کہ لوگ بھاری خرچ اٹھا کر تفریح کی غرض سے خلا کے سفر پر جانے لگے ہیں ۔تصور کیجئے کہ برطانیہ میں چھ سال سے زیادہ پرانی کاریں وسطی لندن میں داخل نہیں ہو سکیں گی یا بھاری رقم ادا کرنی پڑے گی۔بدلتے حالات اپنے ساتھ ایسے ایسے کتنے ہی عذاب لے کر آرہے ہیں۔ دشواریاں بڑھتی جارہی ہیں، ایک اور غضب یہ ہوا ہے کہ اس پڑھے لکھے معاشرے میں جہاں ہر ذی شعور نے سارے ٹیکے لگوالئے ہیں اس کے باوجود کورونا پھر سے پھوٹ پڑا ہے۔کہاں تو ہر روز مرنے والوں کی تعداد چھ سات رہ گئی تھی ، کہاں کورونا کا لقمہ بننے والوں کی تعداد دو سو یومیہ ہوجائے تو تعجب نہیں ہوگا۔ کہتے ہیں کہ جاڑے اس بارخدا جانے کب کا حساب چکائیں گے اور خاص طور پر کتنے معمر مریض لقمہ اجل بنیں گے۔کیا ان تمام آفتوں کا الزام حکومت کے سر پر دھریں؟ کیا لیبر پارٹی کو چاہئے کہ آپے سے باہر ہوجائے اور ٹوری پارٹی کی حکومت کی بنیادوں میں بارود لگائے۔کیا حکومت کو تبدیل کرنا ہی ہر مسئلے کا حل ہے، کیا ہر وہ حکومت نالائق، نا اہل، جاہل اورخدا جانے کیا کیا ہے جو آپ کی نہیں؟یہ رویہ سمجھ میں آتا ہے مگر اس میں حد سے بڑھی ہوئی شدّت سمجھ میں نہیں آتی۔چلئے مانا کہ موجودہ حکومت جو کچھ بھی کر رہی ہے غلط ہے تو کوئی بتائے کہ پھر صحیح کیا ہے۔ متبادل کیا ہے، علاج کیا ہے، دوا کیا ہے؟ اس پر یاد آیا کہ دوا کے معاملے میں منافع خوروں نے سارے نئے پرانے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ مریضوں، معذوروں اور لاچاروں کی بےبسی سے منافع نچوڑنا یقیناً بھاری جرم ہے اور اس کی معافی نہیں مگر اس کا یہ علاج بھی نہیں کہ حکومت کو کان پکڑ کر مسند اقتدار سے اتار دیا جائے اور کسی دوسرے کو بٹھا دیا جائے کہ وہ جو کچھ کرے گا، وہ تاریخ بارہا دکھا چکی ہے۔اس کی سند تاریخ سے ملتی ہے۔سب کہتے ہیں کہ ہمارا زمانہ اچھا تھا۔ اگر اچھا ہوتا تو ،خلقت آپ کو سر پر بٹھاتی، چومتی اور آنکھوں سے لگاتی۔ایسا دوسرو ں کے ہاں ہوتا ہوگا، ہمارے ہاں تو ایسی نہ کوئی ریت ہے نہ روایت۔سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی مقبولیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر آئین میں پابندی نہ ہوتی تو کلنٹن عمر بھر صدر رہتے۔ ہنسی آتی ہے ایسی باتیں سن کر، اور رونا بھی۔

رضاعلی عابدی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج سویرے سویرے انٹرنیٹ پر ایک پیغام آیا۔ جو ں کا توں نقل کر رہا ہوں۔Mojh ko rashn le do pleej 5 din Sy hum bokhe hai. Koi kam nahi bahut majbor hain۔ایک ان پڑھ ماں نے ذرا پڑھی ہوئی بچی کو املا بول کر اپنا پیغام لکھوایا ہے:’’مجھ کو راشن لے دو پلیج(پلیز)پانچ دن سے ہم بھوکے ہیں۔کوئی کام نہیں ہے۔ بہت مجبور ہیں‘‘۔دن ڈھلنے سے پہلے فاقہ زدہ کنبے کو راشن اور کچھ نقدی بھجوادی گئی۔ یہ قصہ مگرایک گھر کا نہیں۔ اور فوراً ہی امداد پہنچانا اس مسئلے کا حل نہیں۔یہ پچھلی حکومتوں کا نازل کیا ہوا عذاب نہیں، یہ تیل کی قیمتوں میں اضافے کا معاملہ نہیں۔ یہ کورونا کی قیامت خیز وبا کی لعنت نہیں۔ یہ ڈالر کی گرتی چڑھتی قدر کا جھگڑا نہیں۔ یہ بے روزگاری کا شاخسانہ نہیں۔ یہ قوتِ خرید کے وقت کے گڑھے میں دھنس جانے کی سنگین صورت حال بھی نہیں۔ یہ احمقانہ تاویل اور الٹے سیدھے پیش کئے جانے والے دلائل کا بھی نتیجہ نہیں۔ تو پھر کیا ہے؟ آپ کہیں گے کہ مسائل ہیں۔ تو جہاں مسائل ہوتے ہیں وہاں ان کا حل بھی تو ہوتا ہے۔ یہ کوئی اعلیٰ فلسفہ نہیں، دنیا کا چلن ہے کہ جہاں مسئلے سر اٹھاتے ہیں وہاں سر جوڑ کر بیٹھنے والے اعلیٰ دماغ بھی ہوتے ہیں۔تاریخ میں زیادہ پیچھے جانے کی ضرورت نہیں، صبح شام کا معمول ہے، ادھر مسئلے نے سر اٹھایا، ادھر اس کا حل نکال لیا گیا۔پھر یہ کیا ہے کہ گھرانے چار دن سے بھوکے بیٹھے ہیں اور فضا پر ایسی تاریکی مسلط ہے کہ روشنی کی ذرا سی کرن بھی نہیں۔

صاف ظاہر ہے کہ یہ کچھ اور ہے۔یہ قدرت یا معاشیات کے علم سے نمودارہونے والی صورت حال نہیں ہے۔ اس کے پیچھے کچھ اور کار فرما ہے۔ یہاں نہ طلب کا قصہ ہے نہ رسد کا۔ یہاں نہ افراط زر کا رونا ہے نہ محنت کا۔ یہاں معاملہ کسی کے ہاتھ میں ہے اور اس ہاتھ پر کسی کا بس نہیں چل رہا۔ حکام اور ان کے گماشتے جو بھانت بھانت کی دلیلیں دے رہے ہیں اور جو تاویلات پیش کر رہے ہیں وہ شروع شروع میں تو معقول لگیں۔ لیکن جب حالات بد سے بدتر ہونے لگے تو صاف نظر آنے لگا کہ یہاں کوئی ہے جو کچھ چاہتا ہے۔ کون ہے اور کیا چاہتا ہے؟ یہ بھید چھپا نہیں رہے گا۔

ہم یہ سارا منظر دیکھ رہے ہیں مگر ہم میں سے زیادہ تر لوگوں نے قحط نہیں دیکھے اس لئے یہ قیاس کرنے میں مشکل ہورہی ہے کہ یہ بھی قحط کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ بنگال کے قحط میں تو یہ تھا کہ نصیب نہیں تھا۔ راہ چلتے لوگ چلتے چلتے گرے اور مر گئے کیوںکہ ان کے پاس کھانے کو نہیں تھا۔ اِس ہمارے قحط کی چھب نرالی ہے کہ کھانے کو ہے اور بہت ہے پھر بھی لوگ فاقے سے نڈھال ہوتے ہوتے دم توڑ رہے ہیں۔ کہتے ہیں گندم، کپاس اور گنے کی بمپر فصلیں ہوئی ہیں۔ ہوئی ہیں تو پھر کہا ں گئیں؟بازار سبزیوں اور پھلوں سے بھرے پڑے ہیں تو لوگوں کے چولہے کیوں ٹھنڈے پڑے ہیں۔ کہتے ہیں کاریں زیادہ فروخت ہورہی ہیں، پٹرول مہنگا ہونے کے باوجود زیادہ استعمال ہورہا ہے، سریا بہت بک رہا ہے، سمندر پار آباد لوگ بڑی بڑی رقمیں گھر بھیج رہے ہیں، تو پھر بچے اسکول سے کیوں اٹھا لئے گئے ہیں اور چاردن سے گھر میں کھانے کو کیوں نہیں ہے؟ اسی کو قحط کہتے ہیں مگر کیساقحط کہ شکر کے تاجر، کپاس کے بیوپاری، آٹے کے مل مالکان چوبیس گھنٹے دولت پیدا کر رہے ہیں اور دوسری طرف عوام ہیں کہ ان کی آہ و بکا اب سننے کی تاب نہیں رہی۔

میں پھر کہتا ہوں، یہ معاملہ کچھ اور ہے، کہیں کوئی اور چالیں چل رہا ہے اور ہم بے بس اور لاچار مُہرے حسرت و یاس کی تصویر بنے کبھی ایک گھر میں اور کبھی دوسرے گھر میں جارہے ہیں کہ کہیں تو وعدے پورے ہوں گے۔کبھی تو تقدیر پہلو بدلے گی اور کوئی تو دو وقت کی روٹی کی نوید لے کر آئے گا۔

میں نے لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ نئے نظام سے پرانا نظام اچھا تھا۔ہاں پرانے نظام کی ایک بڑی خوبی تھی۔ جس نے زیادہ چوں چرا کی اس کو دودھ میں گری مکھی کی طرح نکال کر پھینکا بھی گیا۔بارہا حساب بےباق کیا گیا، کتنی ہی مرتبہ سرزنش بھی ہوئی۔ نا منظوریاں بھی ہوئیں، سڑکوں اور چوراہوں پر فیصلے ہوئے۔ گلی کوچوں میں بلند ہونے والے نعروں نے ثابت کیا کہ زندہ باد کا حق دار کون ہے اور مردہ باد کا سزا وار کون ؟

اب یہ کیسا زمانہ ہے، اب کیا ہوا وہ ہوا میں مکے لہراتے ہوئے لوگوں کو، کہاں گئے وہ گلا پھاڑنے والے جوشیلے لوگ۔ وہ جن کی ہاتھوں میں قوموں کے مقدر ہوا کرتے تھے، کس خواب خرگوش میں محو ہیں،یہ کیسا سنّاٹا ہے کہ ہر ایک بول بھی رہا ہے لیکن ہر ایک کی بات ہوا میں تحلیل ہوکر ضائع بھی ہورہی ہے۔ لوگوں نے خاموشی کی چادر کیوں اوڑھ لی، چپ کا روزہ کیوں رکھ لیا،کانوں میں روئی کیوں ٹھونس لی۔کوئی سبب تو ہوگا جو پرانے منظروں نے خود کو دہرانا چھوڑ دیا۔تاریخ کا کارواں چلتے چلتے کیوں ہانپنے لگا۔ وہ جوش کیا ہوا، ان ولولوں کو کس کی نظر کھا گئی۔ہاتھ پاؤں شل ہوگئے ہیں کیا؟

اور ایک آخری بات۔فاقہ کش،لاغر اور نحیف عوام کب تک سر نیوڑھائے انجام کا انتظار کریں گے۔پردہ کب گرے گا؟

بشکریہ جنگ

مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی

کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی

جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی

رضا علی عابدی کی دیگر تحریریں پڑھیے

About The Author