فضیل اشرف قیصرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ عرصہ قبل رضا علی عابدی صاحب کی خدمت میں پیش کیے جانے کی غرض سے لکھی ایک مختصر اور نا مکمل تحریر
الفاظ اور مقامیت
چڑھا منصور سولی پر!
جو واقف تھا وہی دلبر!
ارے ملا جنازہ پڑھ!
میں جانو میرا خدا جانے!!!!
(سندھ کی گائیک عابدہ پروین کی آواز)
“تونسہ شریف “کی “اِنڈس ہای وے” پر واقع “مدنی سروس سٹیشن “پہ “جاپانی”گاڑی دھلنے کے انتظار میں بیٹھے لوگ سروس سٹیشن پہ لگے اس “اردو”گیت کی جانب متوجہ تھے۔ساتھ کے “حماچے” پہ کچھ لوگ “افغانی”سگریٹ کھولنے اور بھرنے میں مصروف تھے۔وہیں اپنے چچا کے ساتھ آیا “نیکر شرٹ “میں ملبوس ایک بچہ بھی یہ سب دیکھنے میں مصروف تھا۔۔
وہ ان سب چیزوں سے زیادہ گاڑی کے “جیک” پر اٹھنے کے منظر سے لطف اندوز ہونا چاہ رہا تھا۔اسکی نظر پیہم اس پر تھی کہ یہ کیا سائنس ہے اور گاڑی اوپر کو کیسے اٹھ جاتی ہے؟وہ “جیک “کے نام اور اسکی سائنس سے واقف نہیں سو وہ اسے گاڑی کو پھانسی دینا کہہ رہا ہے۔شاید جدید ٹیکنالوجی کے آنے کے فوراً بعد اس عمل کو گاڑی کو “سولی دینا “ہی کہا جاتا ہو کیونکہ ہمارے ہاں ہر شۓ کا ایک مقامی ترجمہ بھی ہوتا ہے۔
جیسے ہماری سرائیکی میں ایک اصطلاح ہے،”بال ٹنگڑ”-اگر اسکا اردو ترجمہ کیا جاۓ تو وہ بنے گا بچہ ٹانگنا اور اردو میں ٹانگنا پھانسی کے لیے مستعمل ہے۔مگر سرائیکی میں بچہ ٹانگنے کا مطلب شیر خوار بچے کی گردن کو لمبائ دینے کے لیے گردن کے نیچے تکیہ رکھ کر گردن لُڑھکاناہے-
ایسے ہی جوۓ کے ایک مقامی کھیل کا نام بھی” سولی” ہے۔جبکہ تاش کے ایک اور کھیل کا نام “بارات” اور دوسری کا “بڑھا “ہے۔اسی “بڑھے” کا پنجابی نام “بھابھی ٹُھلا” ہے۔پنجاب میں بھابھی ٹھلا ہارنے والے کو بھابھی کا لقب دیا جاتا ہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ وہ ناک پراس جگہ ہاتھ رکھ کے بیٹھے جہاں خواتین عموماً ناک چھدواتی ہیں۔اسی طرح “ٹُھلے “ کا پنجابی میں ایک اور مطلب بھی ہے۔جو پولیس فورس کے دوست بہتر جانتے ہیں۔
ایسے ہی تاش کے ایک مشہور و مرغوب کھیل کا مقامی ورژن “کٹوتی” ہے اور کٹوتی میں ہارنے والی جوڑی کو “کھوتی” کا لقب دیا جاتا ہے۔جبکہ تین بندوں کے رنگ کےمقامی ورژن کا نام “تِرکو،پنجو،اَٹھو” ہے اور اس کھیل میں چیک میٹ دینے پر کہا جاتا ہے کہ ہارنے والے کی شادی ہو رہی ہے۔اب مقامیت کی یہ خوبصورتی ہی کیا کم ہے کہ گاڑیوں کے بھی “گوڈے” ایجاد کر لیے گۓ۔اور گوڈے کا نام خیبر سے مہران ایک ہی طرح مستعمل ہے۔یقین کی حد تک کہا جا سکتا ہے کہ شاید پاکستان میں گاڑی مالکان کی ایک فیصد شرح کو بھی گاڑی کے گوڈوں کا اصل نام پتہ نہیں ہو گا۔
پتھروں کا ایک کھیل جسے قطار کہا جاتا ہے وہ سرائیکی میں “انڑ بنڑ تنڑ” ہے۔انڑ بنڑ کا تو مطلب ہے کہ یہ ان بن ہے مگر “تنڑ” شاید وہ ضروری اضافہ ہے جو مقامیت کی روح ہے۔ثقافتیں کھبی جامد نہیں رہیں کہ یہی ثقافت کی بقا ہے۔زبانیں اپنا دامن وسیع رکھتی ہیں اور ثقافتیں ہوتی ہی وسیع ہیں۔
سو زبانوں کے آگے بند باندھنا،انہیں قبائیلی،علاقائ یا صوبائ کہنا،ان زبانوں سے جڑی ثقافت کی تضہیک کرنا،اس زبان میں بنیادی تعلیم پر اعتراض اٹھانا اور انکے لب و لحجے پر لطیفے گڑھنا ایک ایسا فعل ہے کہ یہ اگر ثقافتوں کے مابین ہو تو ثقافتی مسابقت ہی کہلاۓ مگر ،اگر اسے ریاستی پشت پناہی کے تحت برتا جاۓ تو یہ فعل،فعل کم قبیح فعل زیادہ کہلاۓ گا۔
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی