امجد قمر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج میرے چار سالہ بیٹے شاہان کے سکول کا پہلا دن تھا۔ گھر سے نکلا تو اس کی ماں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ماں اور بیٹے میں یہ پہلی جدائی تھی۔ بوجھل دل کے ساتھ سکول پہنچے ۔ جب شاہان کو کلاس میں چھوڑا تو وہ رو رہا تھا ۔ اس طرح اسے چھوڑنے کا من نہیں چاہ رہا تھا لیکن شاید سب والدین نے ایک دن یہ کرنا ہی ہوتا ہے ۔ دو گھنٹے گزر چکے ہیں لیکن دماغ میں اس کا چہرہ گھوم رہا ہے ۔ مختصر الفاظ میں کہوں تو صبر نہیں آ رہا ۔
ان ہی سوچوں میں مدغم حسب عادت سوشل میڈیا کھولا تو ہر طرف آرمی پبلک سکول کے مقتول بچوں کی لاشیں بکھری پڑی تھیں ۔ ماوٗں کی آہ بکا اور چیخیں فلک تک گونجتی سنائی دیں۔ انصاف کے لیے واویلا کرتے باپوں کے جھکے ہوئے لاچار و ناتواں کندھے نظر آئے ۔ طاقت کے مرکز کے سامنے بے بسی کی تصویر بنے کچھ خاموش چہرے بھی تھے جو چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ ہمیں نہ تو شہادت تمغہ ضرورت ہے . نہ معاوضہ اور نہ صبر کی دعائیں . ہمیں انصاف چاہیئے ۔
دل دہلا دینے والے ان مناظر میں ایک ماں جب میڈٰیا سے بات کر رہی تھی تو کسی نے کہا کہ صبر کریں ۔ تو اس نے جوابا کہا کہ کہ میرے لیے صبر کی دعا نہ کریں مجھے انصاف دیں ۔
ایک ماں نے روتے ہوئے روداد سنائی کہ جب ان کی ملاقات اس وقت کے کور کمانڈر لیفٹینینٹ جنرل ہدایت اللہ سے ہوئی تو جنرل نے کہا کہ کیا ہوا جو آپ کے بچے شہید ہوئے اور پیدا کرلیں۔
آرمی پبلک سکول کے سانحے کو سات سال مکمل ہونے والے ہیں. جاری شدہ رپورٹس کے مطابق حملہ آوروں میں سے کچھ کو پھانسی ہو چکی ہے . لیکن والدین کا موقف ہے کہ اتنے بڑے سانحے کے ذمہ داران کا تعین کر کے انہیںسزائیں سنائی جائیں .
گزشتہ روز دارا لحکومت میں اسی کیس کی گونج تھی ۔ جب سپریم کورٹ نے وزیرا عظم پاکستان کو عدالت میں طلب کر لیا۔ سپریم کورٹ کے معزز جج جب وزیر اعظم عمران خان سے پوچھا کہ آپ نے اس سانحے کے حوالے سے کیا کارروائی کی ۔ تو ان کا جواب تھا کہ ہم نے متاثرین کو معاوضہ ادا کر دیا ہے۔ اور ہم کیا کر سکتے ہیں ؟
مجھے نہیں معلوم کہ کورکمانڈر صاحب کی کوئی اولاد ہے یا نہیں ہے ۔ لیکن بے حسی سے بھرپور اس جواب سے لگتا یہی ہے کہ یا ان کے پاس دل نہیں یا ان کی اولاد نہیں ۔
محترم وزیراعظم سے کوئی گلہ نہیں کیونکہ ان کو اولاد کی پرورش کے مرحلوں سے گزرنا ہی نہیں پڑا ۔ نہ ہی وہ سمجھ سکتے ہیں کہ اولاد کا دکھ کیا ہوتا ہے ۔
شاید قصور ان بڑوں کا بھی نہیں ۔ ہمارا معاشرہ انسانی جانوں کے ضیاع پربحثیت مجموعی بے حسی کا شکار ہو چکا ہے ۔ لفظ شہید کا تمغہ سجا کر ہم قیمتی جانوں کے ضائع ہونے کے عادی مجرم بن چکے ہیں ۔ ہماری غیرت کے جاگنے کے معیارات غیر انسانی ہو چکے ۔
سچ کہوں تو مجھے نہیں لگتا کہ ان ماوٗں کو انصاف مل سکے گا۔ کمیشن پر کمیشن بنے گا۔ رپورٹیں بنیں گی۔ تاریخ پر تاریخ ہو گی ۔ اور پھر اے پی ایس کے معصوم بچوں کا خون حکومتی اور عدالتی فائلوں کی گرد میں گم ہو جائے گا۔
ماں کے نصیب میں وہی آنسو زندہ رہیں گے جو پہلے دن سکول بھیجتے ہوئے اس کی آنکھوں میں تھم گئے تھے ۔
یہ بھی پڑھیے:
ریڈیو پاکستان ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔ گلزار احمد
ہماری داخلہ و خارجہ پالیسی اور دو خواتین کے سمارٹ فون۔۔۔ امجد قمر
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر