رؤف لُنڈ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمود نظامی ! آخر دم تک زندہ رہ کر زندگی گزارنے والا محمود نظامی چلا گیا ۔استاد محمود نظامی سرخ سلام🌹
ڈیرہ غازیخان کی تحصیل تونسہ اور شہر تونسہ جو اگرچہ سر زمین اولیاء یا پھر اس خطے سے تعلق رکھنے والے بے شمار نامور پڑھے لکھے لوگوں کی وجہ سے یونانِ جدید یا یونانِ ثانی کے نام سے جہان میں شہرت رکھتا ھے۔ لیکن دو ایسی شخصیات ہیں کہ جن میں سے ایک برصغیر کی تقسیم کی خونی ہجرت کے وقت یہاں سے انڈیا جاکر علم و ادب کا روشن ستارہ بن کر چمکنے والے جناب فکر تونسوی ہیں اور دوسری شخصیت محمود نظامی جو اپنی فکری، ادبی، سیاسی اور انقلابی شہرت کی وجہ سے تونسہ کی شناخت بنے ہیں ۔۔۔۔۔۔ محمود نظامی اپنے ارد گرد رہنے والوں میں صرف انتہائی محبوب بن کر نہیں بلکہ ایک انتہائی متنازعہ شخصیت کے طور پر بھی مشہور رہا۔ تاھم دنیا کے دیگر عظیم لوگوں کی طرح ان کا متنازعہ ہونا اپنے کسی اخلاقی جرم کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اپنی اس سوچ، فکر، نظریئے اور ان آدرشوں کی وجہ سے متنازعہ رہا جو حالات کو جوں کا توں رکھ کر انسانوں (محنت کشوں ) کو مغلوب اور محکوم رکھنے سے انکاری ہیں ۔۔۔۔۔
محمود نظامی نے عظمت انسان کے زندہ اور قائم رہنے کو جس طرح سمجھا اور جانا زندگی بھر اپنی اس سمجھ بوجھ پر غیر متزلزل طور پر قائم رہا ۔ اس سفر میں گالیاں سنیں، فتوے سہے مگر پھر بھی فیض احمد فیض کے لفظوں ” یہی داغ تھے جو سجا کے ھم سرِ بزمِ یار چلے گئے ” کا روپ دھار کر شہر شہر، قریہ قریہ کے چوک چوراھے میں مجلسیں سجا کر بیٹھا ہوتا ۔ ان کے ساتھ بیٹھنے والے کچھ شوق سے بیٹھتے کچھ خوف سے ۔ شوق والوں کو سیکھنے کی لگن ہوتی اور خوف والوں کے ذہن میں وہ پروپیگنڈا کہ "اس کے ساتھ بیٹھو گے تو ایمان خراب کر بیٹھو گے” ۔۔۔۔۔۔
محمود نظامی ان تمام نام نہاد دانشوروں سے قطعی طور پر مختلف اور جدا تھا جو اپنی علمیت کا رعب جھاڑنے کو مختلف روپ دھار کے لوگوں سے متنفر ہو کر کھونوں کھدروں میں اپنے خیالات کی جگالی کرتے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔
محمود نظامی نہ صرف ہر وقت ہنستا ، مسکراتا اور قہقہے لگاتا تھا بلکہ وہ ہنسی مسکراہٹ اور قہقہوں کو پاتال سے نکال کر دکھی لوگوں کے لبوں میں لا کے سجا دیتا ۔ یہی وجہ تھی کہ جو جو لوگ بھی جتنا وقت محمود نظامی کے ساتھ رھے دکھ تکلیفیں اور درد و الم ان سے دور رھے ۔۔۔۔۔۔
محمود نظامی مارکسسٹ تھا، محمود نظامی غیر متعصب قوم پرست تھا۔ محمود نظامی پاکستان پیپلز پارٹی کا بے لوث اور نظریاتی کارکن تھا۔ محمود نظامی عام (محنت کش ) لوگوں میں سے تھا، زندگی بھر عام لوگوں (محنت کشوں ) میں زندہ رہا اور آئندہ بھی عام لوگوں (محنت کشوں )کی زندگیوں میں زندہ رھے گا۔استاد محمود نظامی ایک بار پھر سرخ سلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🌹🌹🌹🚩🚩🚩
مبارک باد اور سرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔رؤف لُنڈ
کامریڈ نتھومل کی جدائی ، وداع کا سفر اور سرخ سویرے کا عزم۔۔۔رؤف لُنڈ
زندگی کا سفر سر بلندی سے طے کر جانے والے کامریڈ کھبڑ خان سیلرو کو سُرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ