عمار مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ دنوں اینکر پرسن ”عاصمہ شیرازی“ نے بی بی سی اردو کے پلیٹ فارم سے ایک کالم لکھاایک کالم لکھا۔ اس میں کسی شخصیت کی طرف کوئی اشارہ نہیں تھا بس کچھ ”تعویذ گنڈوں“ کا ذکر تھا۔ کالم کا چھپنا تھا کہ سوشل میڈیا پر غلاظت کے کئی گٹر ابل پڑے۔ اس کے بعد صحافی ”سلیم صافی“ نے اسی موضوع پر ایک وی لاگ کیا جس میں دینی اور علمی حوالوں سے بتایا گیا کہ ”جادو ٹونے اور کالے علم“ کی مذہب میں ممانعت ہے، اس کو ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے۔
یہ وی لاگ بھی گالم گلوچ کے طوفان میں دھنس گیا۔ ہر دو صحافیوں پر بہتان اور دشنام کا وہ سلسلہ شروع ہوا کہ کئی دنوں تک تھمنے میں نہیں آ یا۔ مجھے خان صاحب کی خانگی زندگی کے محیرات سے کوئی لگاؤ نہیں۔ میں اس بات کو بھی برا سمجھتا ہوں کہ کہ کسی کی خانگی زندگی، چاہے وہ وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہو، پر بات کی جائے، لیکن مقام حیرت یہ ہے کہ ان ہر دو کالم نگاروں نے اپنی تحاریر اور تقاریر میں نہ کسی شخص کا نام لیا، نہ خان صاحب کی اہلیہ محترمہ کا کوئی ذکر کیا، نہ کسی اشارے سے کسی خاتون کی بات کی، نہ کسی کنائے سے کسی کی ازدواجی زندگی پر کوئی تنقید کی۔ بس ”جادو ٹونے اور کالے بکرے کی سریوں“ کا کنایا استعمال کیا اور اس کی سزا بھگتی۔ جانے لوگ اکیسویں صدی میں ”جادو ٹونے“ کے ذکر سے کیوں اتنا مشتعل ہوتے ہیں؟
حیرت اس بات پر ہے کہ سوشل میڈیا کے آنے سے اب لوگوں کو زبان مل گئی ہے۔ اب چاہے آپ جنرل باجوہ پر تنقید کریں یا جنرل فیض پر، اسٹیبلش منٹ کی بات کریں یا فوج کے غیر سیاسی کردار کی، عاصم باجوہ کے اثاثوں کی مکروہ مثال دیں یا پینڈورا پیپرز فیم جنرل شفاعت کی، اب کوئی ان باتوں پر نہیں چونکتا لیکن جوں ہی ”جادو ٹونے“ کو ذکر آتا ہے، گالیاں دینے والے زرخرید ٹرول بڑے پیمانے پر ایکٹیو ہو جاتے ہیں۔
مجھے تو یہ سب کہانیاں اور فسانہ ہی لگتا ہے کہ خان صاحب کے گھر کے کسی مٹکے سے کچھ احباب کی پوسٹنگ کے قرعے نکلتے ہیں، کچھ ”جن“ کچھ نامانوس سے سیاسی احکامات منوا کر ہی ٹلتے ہیں، کچھ بیوروکریٹس کے پتلے جلتے ہیں۔ ایسا ممکن نہیں۔
لوگ کہتے ہیں خان صاحب ان باتوں پر اعتقاد رکھتے ہیں۔ آج تک خان صاحب کو جو ”عطا“ ہوئی ہے اس میں بھی انہی ”جنوں“ نے کام دکھایا ہے اور اپنے مؤکل کے حکم کی تعمیل کی ہے۔ اس سماج میں بہت سے لوگ ایسی باتوں پر یقین رکھتے ہیں، جس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ میرا استدلال نہ ان کے حق میں ہے، نہ مخالفت میں۔ میرا کہنا صرف اتنا ہے کہ کہ خان صاحب کی خانگی زندگی کے حوالے سے جو باتیں مشہور ہیں، وہ بالکل غلط ہیں۔ اگر ان میں ذرا سی بھی حقیقت ہوتی تو آج حالات مختلف ہوتے۔
اگر یہ مذکورہ ”جنات“ اتنے طاقت ور ہوتے تو سب سے پہلے تو ”بائیڈن“ کا پتلا جلا کر اس کو بھسم کر دیا جاتا، اس کو عالم ارواح سے عمران خان کو فون کو اذن ملتا اور وہ ایک انجانی سی کشش سے بندھا خان صاحب کا نمبر ہر وقت گھماتا رہتا۔ اگر یہ عملیات اتنے اثر انگیز ہوتے تو اس وقت تک آئی ایم ایف کی بلڈنگ جل کر راکھ ہو جاتی، ورلڈ بینک خاک ہو جاتا، مودی باؤلا ہو جاتا، چائنا سی پیک بند کرنے کے جرم میں دیوالیہ ہو جاتا، جرمنی سے جاپان کی سرحد ایک ہی ”دھاگے“ کی گرہ سے مل جاتی، پاکستان میں بارہ موسم کسی ”تعویذ“ سے تخلیق ہو جاتے، ایک ہی ”دم“ سے پاکستان کے تمام قرضے معاف ہو جاتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس سے لگتا ہے کہ مذکورہ ”جنات“ بین الاقوامی نوعیت کے معاملات حل کرنے کی طاقت یا دلچسپی نہیں رکھتے، ان کا حلقہ اثر ذرا ”لوکل“ ہے۔
اگر ان عملیات اور جنات کا اثر صرف ”لوکل“ سطح پر ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ چینی کی قیمت پر قابو کیوں نہیں پاتے، پٹرول کی گرانی پر توجہ کیوں نہیں کرتے، ڈالر کی پرواز کو کیوں نہیں روکتے، کسی ”گھڑے“ سے پٹرول مفت ملنے کی پرچی کیوں نہیں نکلتی، کسی ”دھاگے“ سے غربت ختم کیوں نہیں ہو جاتی، کسی ”دم درود“ سے سب بے روزگاروں کو روزگار کیوں نہیں مل جاتا، کسی ”عمل“ سے اسپتالوں میں دوائیاں کیوں مفت ملنے نہیں لگتیں، کسی تعویذ سے علیمہ خان کی سلائی مشینوں والا کیس کیوں نہیں ختم ہو جاتا، کسی جلالی زائچے سے فارن فنڈنگ کی فائلیں کیوں بھسم نہیں ہو جاتیں، کسی مٹکے سے نکلی پرچی کے توسط سے بی آر ٹی مفت کیوں نہیں تعمیر ہو گئی، کسی جادوئی اثر سے الیکشن کمیشن کیوں راہ راست پر نہیں آ گیا، کسی کالے بکرے کی سری سے مہنگائی کی بلا کیوں نہیں ٹل گئی، کیوں کہ اس وقت خان صاحب کا اصل دشمن کوئی ”سفلی وظیفہ“ نہیں بلکہ مہنگائی بنی ہوئی ہے۔
اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ”جنات اور بھوت پریت“ کو عوام کے دکھ درد سے متعلق ایسے ملکی معاملات سے کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ اب تک کی افواہوں نما خبروں سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ جنات کا سارا زور صرف ملک کی اہم پوسٹنگ پر ہوتا ہے، کس کو پنجاب کو وزیر اعلی بنانا ہے، یہ فیصلہ جنات کرتے ہیں، کب جہانگیر ترین کا جہاز ادھار مانگنا ہے، کب ان سے ناتا توڑنا ہے، یہ فیصلہ جنات کرتے ہیں۔ کس کو وزیر لگانا ہے، کسی کو وزارت سے ہٹانا ہے، یہ فیصلہ جنات کرتے ہیں۔ کسی کو زمین الاٹ کرنی ہے، کسی کی کرپشن پر پردہ ڈالنا ہے، کس کو بین الاقوامی دورے پر لے کر جانا ہے، کس کو تڑپتے چھوڑ جانا ہے، یہ فیصلہ جنات کرتے ہیں۔ کس میڈیا ہاؤس کو زیادہ اشتہار دینے ہیں، کس اینکر کو اذن ملاقات بخشنا ہے، کس کو گالیاں پڑوانی ہیں، یہ فیصلہ جنات کرتے ہیں۔
میرے خیال میں یہ سب بے پر کی باتیں ہیں، جنات اس طرح کے کاموں میں بھلا کیوں دلچسپی لیں گے؟ مزید یہ کہ ان ساری کارروائیوں سے خان صاحب کی خانگی زندگی کو جوڑنا صریحاً زیادتی ہے، یہ کام خلائی مخلوق کے تو ہو سکتے ہیں مگر کسی ماورائی مخلوق کے نہیں۔
جنوں کو اس خار سیاست کے دھندوں میں بس بدنام کیا جا رہا ہے، اصل ”جن“ کوئی اور ہے، جس نے نہ صرف نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کی تاریخ بھی آگے کروا دی ہے بلکہ مٹکے میں سے اگلے چیف کی پرچی بھی نکال لی۔ یوں لگتا ہے پہلی دفعہ ”جنات“ سے پوسٹنگ کے معاملات میں کچھ حساب کی غلطی ہو گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
بندہ ایماندار ہے ۔۔۔عمار مسعود
حکومت کی عجلت اور غفلت ۔۔۔عمار مسعود
پانچ دن، سات دن یا دس دن؟ ۔۔۔عمار مسعود
نواز شریف کی اگلی تقریر سے بات کہاں جائے گی؟ ۔۔۔ عمار مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر