گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے ماضی کے کچے گھروں پر جب پورن ماشی کے چاند کی کرنیں پڑتیں تو پورا گاٶں جگمگ جگمگ کرنے لگتا ۔ ہم چڑھتی جوانی کے لڑکوں کی امنگوں میں سمندر کی طرح جوار بھاٹا ابھر پڑتا۔
سندھو دریا جسے ہم شیہ دریا یا شیر دریا بھی کہتے اس کی لہریں چاندنی میں ریشم کے نیلے کپڑے کی طرح تھرتھرانے لگتیں۔ ہمارے دوستوں کی ٹولی دریا کے کنارے مسکراتے کنول کے پھولوں کے سامنے پِڑ لگاتی۔ پھر اسی کنارے موسیقی۔جھمر ۔کبڈی ۔چھلہ پوچھ کھانا پیناچلتا۔ ڈیرہ کا ایس ایس جھلم جہاذ سفید پینٹ کیا جاتا اور تھوڑے فاصلے پر لنگر انداز ہوتا۔وہ چاندنی کی کرنوں میں تاج محل آگرہ کی شکل میں نظر آتا۔ دریا کے اندر کوئ مچھلی جمپ لگاتی تو دور سے چمکتی نظر آتی۔ ڈالفن اپنی مستی میں گھومتی ہمارے قریب آ جاتیں۔ رات کے آخری پہر قصہ گو لڑکا بگڑو کے ساتھ قصہ سناتا مگر اب خنکی اور تھکاوٹ کی وجہ سے اس کے لہجے کی تھکن محسوس ہونے لگتی۔چاند مشرق سے مغربی افق پر پہنچ جاتا۔بٹیرے پکڑنے والے لمبے بانسوں پر سجے پنجرے اٹھاے آنا شروع ہوتے جن میں بٹیروں کی پٹاخ پٹاخ کی آوازیں گونجتی۔ پھر بستی دھپانوالی کی مسجد کا موذن چاچا یارو اذان دیتا جس کی آواز لاوڈسپیکر کے بغیر دور تک سنای دیتی ہم دریاں لپیٹ کے واپس مسجد کا رخ کرتے۔
آج جب چھ بجے صبح چاند کا منظر دیکھا تو سب کچھ فلم کی طرح گھومنے لگا ۔وہ قصہ گو کے لہجے کی تھکن۔۔۔؎
چاند جب دور افق پر ڈوبا ۔۔
تیرے لہجے کی تھکن یاد آئی۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر