زاہد گشکوری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تین برس میں خوردنی تیل کی قیمت میں 130 فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ 160 روپے سے 369 روپے کلو ہو گئی ہے۔اس کے ذریعے مینوفیکچررز، ہولسیلرز اور مڈل مین نے 170 سے 190 ارب روپے اضافی منافع کمایا ہے، 300 بااثر افراد 15 سو ارب روپے کی مجموعی خوردنی تیل کی مارکیٹ پر قابض ہیں۔ وزیراعظم نے مارچ 2020 میں انکوائری کا حکم دیا تھا لیکن اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی، جب کہ ریگولیٹرز ریکارڈ اضافے پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق، مینوفیکچررز، ہولسیلرز اور مڈل مین نے 170 سے 190 ارب روپے اضافی منافع کمایا، 300 بااثر افراد 15 سو ارب روپے کی مارکیٹ پر قابض ہیں۔ ملک بھر میں تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے اب تک خوردنی تیل کی قیمت میں 130 فیصد تک اضافہ ہوا ہے (160 روپے کلو سے 369 روپے کلو تک پہنچ گئی ہے)۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق، خوردنی تیل کی قیمتوں میں اس غیرمعمولی اضافے سے مینوفیکچررز، ہول سیلرز اور مڈل مین کو مجموعی طور پر اگست 2018 سے ستمبر، 2021 تک 170 ارب روپے سے 190 ارب روپے تک اضافی منافع حاصل ہوا ہے۔ جیو نیوز کے پاس موجود خوردنی تیل بنانے والے مختلف عناصر جیسا کہ درآمدی اخراجات، ٹیکسز/ڈیوٹیز، ریکوری، ٹرانسپورٹ، پیکجنگ، منافع کا فرق اور خوردنی تیل / گھی کی کوالٹی سے متعلق سرکاری اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ تقریباً تین سو کے قریب بااثر افراد نے مارکیٹ کے مجموعی 1500 ارب روپے کے منافع کو اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔
سرکاری ریکارڈ کے مطابق، نومبر 2019 سے جولائی 2020 اور پھر اکتوبر / دسمبر 2020 سے جون/جولائی، 2021 میں سب سے زیادہ منافع حاصل کیا گیا جب خوردنی تیل کی قیمتوں میں عالمی سطح پر بڑی کمی واقع ہوئی تھی۔ لیکن خوردنی تیل کی قیمتوں میں اضافہ بدستور جاری رہا حالاں کہ پام آئل کی درآمدات پر ڈیوٹی میں بھی جنوری، 2020 سے اپریل 2020 تک کمی کردی گئی تھی۔ نومبر، 2019 سے مارچ 2020 تک خوردنی تیل کی قیمتیں 213 روپے فی لیٹر سے 261 روپے فی لیٹر ہوئی، حالاں کہ عالمی مارکیٹ میں پام آئل کی قیمتیں 750 ڈالرز فی ٹن سے کم ہوکر 518 ڈالرز فی ٹن ہوگئی تھی۔ اس مدت میں مینوفیکچررز نے صارفین کو ریلیف فراہم نہیں کیا حالاں کہ ان کی اوسط پیداواری لاگت 123.5 روپے فی لیٹر سے 166.3 روپے فی لیٹر تک رہی تھی۔
اس طرح انہوں نے ان چھ ماہ میں 98 روپے فی لیٹر سے 116 روپے فی لیٹر منافع کمایا۔ یہ وہ وقت تھا جب وزیراعظم عمران خان نے وزارت صنعت و پیداوار اور مسابقتی کمیشن پاکستان (سی سی پی) کو ہدایت کی تھی کہ وہ ناجائز منافع خوروں کے خلاف کارروائی کرے تاکہ کم قیمتوں کا فائدہ صارفین تک منتقل کیا جاسکے۔
جب کہ عمران خان نے 7 ارب روپے کا یوٹیلیٹی ریلیف پیکج بھی منظور کیا تھا۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق، پریشانیوں میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب وزارت صنعت و پیداوار نے اپنے افسر امجد حفیظ کے ذریعے یہ انکشاف کیا کہ خوردنی تیل کی صنعت میں ایک گروہ نے 25 ارب روپے سے 30 ارب روپے منافع 2020 کی پہلی سہ ماہی میں حاصل کیا ہے۔ جب کہ وزارت صنعت و پیداوار کے ضمنی ادارے کے داخلی آڈٹ سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ گھی/تیل کو دی گئی سبسڈی سے 69 کروڑ 91 لاکھ 17 ہزار روپے کا خسارہ ہوا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ شوکت ترین نے بھی متعدد اجلاسوں میں خوردنی تیل کی قیمتوں میں 80 روپے فی کلو تک کمی کی درخواست کی تھی۔ لیکن حکومت نے اس پر کوئی عمل نہیں کیا۔ ایف بی آر ، پرال اور دیگر ریگولیٹرز کے اعدادوشمار سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جنوری، 2019 سے ستمبر، 2021 تک خوردنی تیل سے حاصل مجموعی محصولات 17.3 روپے سے 39.7 روپے فی کلو تک محدود رہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر