عفت حسن رضوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑے دن ہوئے سیاست میں کوئی دم والی بات نہیں تھی، بڑے بڑے رہنما بھی بس بھڑکیوں تک محدود تھے، اپوزیشن بھی کڑوی کسیلی سنانے کو میدان میں آتی ہے پھر دبک کہ بیٹھ جاتی ہے، یہ لمبے چوڑے جلسے اور خطاب ہوں تو نہ کوئی دھمکی نہ الٹی میٹم۔
مولانا صاحب کا اسلام آباد دھرنا کیسا پُھس پُھسا تھا، حکومت کو آنکھیں دکھاتے تھے پھر آپ ہی مان جاتے تھے۔ اپوزیشن کی مکس پلیٹ چاٹ بھی کراری نہیں تھی، پی ڈی ایم نے بڑا زور لگایا مگر زوردار بات نہ بنی۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ ادھر تم ادھر ہم ہوگئیں۔
سیاست میں گرفتاری پھر رہائی پھر گرفتاری والا ٹام اینڈ جیری شو تو چل رہا تھا مگر کوئی شاید ایسا تگڑا پاور شو بھی چاہیے تھا جو گرفتار کرنے والوں کا سر پھوڑ دے۔
سیاست میں خون اور جنون کے لیے جیسا بے سمت جتھا درکار تھا سو مل گیا۔
آپ کو جب بھی خونی جتھے بلاوجہ سڑکوں پر نظر آئیں تو کراچی کا سانحہ بارہ مئی 2007 یاد کر لیا کیجیے۔ جب سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی کراچی آمد پر قتل و غارت گری برپا کی گئی تھی۔ کراچی کی متفرق سڑکوں پر زخمی اور ہلاک افراد یہاں وہاں پڑے تھے اور اسلحہ بردار بلاخوف و خطر حملہ آور تھے، مرنے والے متفرق افراد تھے جیسے کہ عام شہری، وکیل، سیاسی کارکن وغیرہ مگر مارنے والا وہ گروہ کون تھا یہ آج بھی نامعلوم ہے۔
آج کے سیاسی منظرنامے میں ٹی ایل پی کی منطق سمجھ نہ آئے تو پہلے نوے کی دہائی میں کراچی سے اٹھائی اور پھر سلائی گئی سُنی تحریک کو سمجھیں، تحریک نظام مصطفیٰ کو پڑھیں زیادہ ماضی میں جانا پسند نہیں تو طاہر القادری کی تحریک منہاج القرآن کے سیاسی ایڈونچر کو ہی پرکھیں۔
ٹی ایل پی کارکنان کے ہاتھوں میں وہ خونی ڈنڈے کہاں سے آتے ہیں یہ جاننے کے لیے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے ڈنڈا برداروں سے بھی استفسار کریں۔
اگر کئی پولیس اہلکاروں کو مار کے بھی فری ہینڈ پانے والی ٹی ایل پی سے کیے معاہدے کی تفصیلات جاننے کو بڑے بےچین ہیں تو پہلے بدنام بھگوڑے دہشت گرد سے کی گئی ریاست کی ڈیل کے مندرجات بھی جاننے کی سعی کریں۔
میں مثالیں دے کر آپ کے لیے تحریک لبیک کا کیس سمجھنا آسان بنا رہی ہوں یا مشکل یہ فیصلہ تو قارئین پہ چھوڑا مگر میری دانست میں لاہور کے یتیم خانہ چوک سے اٹھی اس تحریک کو کیس ہسٹری کے ساتھ دیکھنا چاہیے۔
کیس ہسٹری بتاتی ہے ایسی تحریکوں کا قیام اچانک، ان کا پھیلاؤ اچانک ضرور ہوتا ہے مگر ان کا عروج اور زوال منصوبے کے مطابق رکھا جاتا ہے۔ کبھی پلان ہاتھ سے نکل جائے تو نوبت آپریشن کلین اپ تک جاپہنچتی ہے مگر انجام بہرحال ہوکہ رہتا ہے۔
یا یوں سمجھ لیں لیب میں بیٹھے سائنس دان جب تجربات سے دیکھتے ہیں کہ فراہم کیے گئے باکس میں ضرورت سے زیادہ اچھلنے والی مخلوق کا ڈی این اے وہی ہے جس کی تلاش تھی تو انہیں کلوننگ کے مرحلے سے گزار کر اپنی منشاء کے مطابق کر لیا جاتا ہے۔ پھر یہ نئی مخلوق کاٹتی بھی ان کی مرضی سے ہے اور ہائبرنیٹ بھی اپنے تخلیق کاروں کی مرضی سے ہوتی ہے۔
ٹی ایل پی میں دم ہے اور یہ کالعدم بھی ہے، اب تک کا سٹریٹ پاور شو بتاتا ہے کہ آن کے آن میں شہر بند کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ڈنڈے دے دیئے جائیں تو یہ جان لیوا بھی ہوجاتے ہیں، ایک نعرہ لگا دو تو ان کے جذبات بپھر جاتے ہیں، افواہ پھیلا دو تو یہ مردے کے پھر جی جانے کو بھی تسلیم کرسکتے ہیں۔ یعنی ڈی این اے لگ بھگ میچ کرگیا ہے۔
ایسی مطلوبہ تحریک برسوں میں بنتی ہے، بڑے تردد بڑی دقتوں سے سنبھلتی ہے، پولیس والوں کا کیا ہے دو چار اس دھرنے میں چلے گئے دو چار پھر چلے جائیں گے۔
یہ تنظیم فی الحال کلوننگ کے مرحلے سے گزر رہی ہے اسی لیے کبھی سڑکوں پر نظر آتی ہے کبھی خاموشی سے ہائبرنیشن کے لیے بھیج دی جاتی ہے جہاں یہ بند کمروں میں پھر سے توانائی جوڑتی ہے۔
اس تنظیم کا مقصد پیغمبر اسلام کی حفاظت ہے یا پارلیمان کی سیاست، ان کا مطالبہ وراثت میں تحریک کے سربراہ بننے والے نوجوان سعد رضوی کی رہائی ہے یا فرانس کے سفیر کی ملک بدری، انہیں پرتشدد دہشت گرد تنظیم بننا ہے یا جمہوری انتخابی تنظیم کا تشخص اپنانا ہے ان تمام معاملات میں فی الحال شدید کنفیوژن ہے۔
اس تنظیم کی منزل کیا ہے اور راہبر کون ہے جیسے یہ معاملہ دھندلا سا ہے ایسے ہی یہ بھی واضح نہیں رکھا گیا کہ اس پراجیکٹ کا فنانسر کون ہے۔ اس تنظیم کے دھرنے میں کبھی خشک میوے شہزور میں بھر کر نامعلوم مقام سے بھجوائے جاتے ہیں تو کبھی نوٹ تھمائے جاتے ہیں۔ کبھی کہہ دیا جاتا ہے فنانسنگ بھارت کر رہا ہے اور کبھی کراچی کے سرمایہ کار کھل کر اس کی نمائندگی کرتے ہیں۔
اتنی رازداری اتنی کنفیوژن کا فائدہ یہ کہ تحریک لبیک نے محض چار سال کی پرفارمنس سے خود کو وہ کامیاب گروہ ثابت کیا ہے جس کے سر پہ ہاتھ پھیرنے والے کئی۔ یہ بیک وقت سرمایہ کاروں کے لیے بہترین سرمایہ کاری، اسٹیبلشمنٹ کے لیے مستقبل کی منصوبہ بندی، سیاسی جماعتوں کے لیے مذہبی کارڈ اور شورش پسندوں کے لیے مطلوبہ نتائج کی گارنٹی ہے۔
طاقت جھوٹ ہو یا سچ میں مل جائے کمبخت یہ سمجھنے کی مہلت نہیں دیتی کہ لیب میں تجربات سے بنی تحریکوں کی سانسیں ادھار ہوتی ہیں۔ ٹی ایل پی والے فی الحال مگن ہیں مگر وقت ملے تو ضرور سوچیں کہ جیسے ڈی این اے آزمودہ ہے، نسخہ تیر بہدف ہے اور تجربہ بھی کئی بار دہرایا ہوا ہے ایسے ہی انجام بھی یقینی ہے۔
یہ بلاگ انڈیپینڈنٹ اردو پر شائع ہوچکاہے
یہ بھی پڑھیے:
کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی
ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی
ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی
خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی
فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ