نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بلوچستان میں سیاسی تبدیلی||ظہور دھریجہ

اب میر عبدالقدوس بزنجو 29 اکتوبر 2021 ء کو بلوچستان کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے ہیں۔ میر غوث بخش بزنجو وسیب کے محسن تھے وہ پہلے سیاستدان تھے جنہوں نے اپنی جماعت میں سرائیکی وسیب کا الگ یونٹ قائم کیااور اس کا نام سرائیکی صوبہ رکھا۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عبدالقدوس بزنجو نے بلوچستان کے نئے وزیراعلیٰ کے عہدے کا حلف اٹھالیا، گورنر بلوچستان سید ظہور آغا نے وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو سے حلف لیا، حلف برداری کی تقریب میں اراکین اسمبلی، سیاسی جماعتوں کے رہنما، سول و ملٹری حکام نے شرکت کی جبکہ میر جان محمد جمالی بلا مقابلہ بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوگئے تاہم علیل ہونیکی وجہ سے اپنے عہدے کا حلف نہ اٹھا سکے۔
اسپیکر بلوچستان اسمبلی کی خالی نشست کے لیے بلوچستان عوامی پارٹی نے سینئر رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی میر جان محمد جمالی کو نامزد کیا تھا جو بلا مقابلہ منتخب ہوگئے ، میر جان محمد جمالی کا شمار صوبے کے سینئر سیاستدانوں میں ہوتا ہے، وہ 1998 میں وزیراعلیٰ بلوچستان کے منصب پر فائز رہے ہیں جب کہ 2006 میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے فرائض انجام دے چکے ہیں، میر جان محمد جمالی 2013 میں اسپیکر بلوچستان اسمبلی کے عہدے پر رہ چکے ہیں۔
میر عبدالقدوس بزنجو بلوچستان کے بہت بڑے سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ نومنتخب وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس خان بزنجو یکم جنوری 1974کومیر عبدالمجید بزنجوکے ہاں  پیدا ہوئے ، ابتدائی تعلیم ضلع آواران میں اپنے آبائی شہر شنڈی جھائو سے حاصل کی۔
2000 ء میں انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی سے انگریزی میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ میر عبدالقدوس بزنجو نومبر 2002 ء سے بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے رکن ہیں۔ اس سے قبل نومبر 2002 ء سے مئی 2018 ء تک بلوچستان اسمبلی کے رکن اور 13 جنوری 2018 ء سے 7 جون 2018ء تک بلوچستان کے 16ویں وزیر اعلیٰ اور 2013 ء سے 2015 ء تک بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کے طور پر خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔
اب میر عبدالقدوس بزنجو 29 اکتوبر 2021 ء کو بلوچستان کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے ہیں۔ میر غوث بخش بزنجو وسیب کے محسن تھے وہ پہلے سیاستدان تھے جنہوں نے اپنی جماعت میں سرائیکی وسیب کا الگ یونٹ قائم کیااور اس کا نام سرائیکی صوبہ رکھا۔ مجھے یاد ہے کہ 1980ء میں میر غوث بخش بزنجو رحیم یار خان پریس کلب میں تشریف لائے تو ان سے سخت سوالات کئے گئے ، ایک سوال سرائیکی صوبے کے یونٹ کے حوالے سے بھی تھا ، ایک صحافی منظور حسین نے سخت جملہ ادا کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ آپ سرائیکی کے ’’مامے‘‘ لگتے ہیں۔
 ایک اور سوال یہ تھا کہ آپ کہتے ہیں کہ میں پہلے بلوچ ہوں ، پھر مسلمان اور اس کے بعد پاکستانی اس کی کیا دلیل ہے تو میر غوث بخش بزنجو غصہ میں نہ آئے بلکہ سوالوں کا سنجیدگی سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں پہلے بلوچ اس لئے ہوں کہ ہم ہزارہا سالوں سے بلوچ چلے آ رہے ہیں، اسلام آیا تو ہمارے بزرگوں نے اسلام قبول کیا اسی بناء پر میں دوسرے نمبر پر خود کو مسلمان کہتا ہوں ، تقسیم کے بعد پاکستان قائم ہوا تو میں تیسرے نمبر پر خود کو پاکستانی کہتا ہوں۔
رہی بات سرائیکی صوبے کی تو میں سرائیکی کو الگ اکائی تسلیم کرتا ہوں ، سرائیکی کا اپنا خطہ ، اپنی تہذیب، اپنی ثقافت اوراپنا جغرافیہ ہے اور تاریخی حوالے سے ملتان بہت بڑے صوبے کے طور پر موجود رہا ہے، یہ صوبہ وفاق کے توازن اور پاکستان کے استحکام کا باعث بنے گا۔ میر عبدالقدوس بزنجو کے ساتھ جان محمد جمالی کا سپیکر بلوچستان اسمبلی انتخاب بھی اہمیت کا حامل ہے، جمالی صاحب کے بزرگوں کی پاکستان کیلئے بہت خدمات ہیں، ہمیں امید ہے کہ اس انتخاب سے بلوچستان میں بہتری آئے گی اور سرائیکی مزدوروںکے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے گا، میں دوسری طرف آتا ہوں گزشتہ روز یونین آف جرنلسٹ پاکستان کے صدر شہزادہ ذوالفقار خان بلوچ ملتان تشریف لائے۔
جھوک سرائیکی میں ان سے بلوچستان کی صورتحال پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ ذوالفقار خان نے کہا کہ میرا تعلق کوئٹہ بلوچستان سے ہے، میں پورے ملک کا دورہ کر رہا ہوں۔ پسماندگی کے حوالے سے مجھے بلوچستان اور وسیب کی ایک جیسی صورتحال نظر آرہی ہے، بلوچستان میں معدنی وسائل ہیں اور وسیب زراعت کا مرکز ہے مگر عام آدمی غربت اور پسماندگی کا شکار ہے۔
 ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان دوہرے عذاب کا شکار ہے، میں نے بلوچستان میں دہشت گردی اور وسیب کے مزدوروں کے قتل کے بارے میں سوال کیا تو اُن کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ ملک دشمن قوتیں کر رہی ہیں، اُن کا کہنا تھا کہ بھارت کی طرف سے بلوچستان میں تخریب کاری کے جال بچھائے گئے جسے پوری قوم کو متحد ہو کر ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔
ذوالفقار خان کے ساتھ آنیوالے وفد سے بلوچستان کی سیاسی صورتحال بارے بھی گفتگو ہوئی۔ اس موقع پر وفد کے ارکان نے کہا کہ قبائلی سرداروں کی بجائے بلوچستان کو ایک ایسے رہنما اور رہبر کی ضرورت ہے جو عام آدمی کی مشکلات اور مسائل کو سمجھتا ہے، ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بلوچستان میں لیڈر شپ کا فقدان ہے ۔ وہاں کی سیاست سرداروں کے پاس ہے جو کہ عام آدمی کو انسان نہیں سمجھتے ، نواز شریف کے گزشتہ پانچ سال واضح مثال کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
 بلوچستان میں ڈھائی سال عوامی رہنما ڈاکٹر عبدالمالک وزیراعلیٰ تھے ، ان کے دروازے عام آدمی کے لئے کھلے تھے ، وہ لوگوں کے پاس جاتے اور ان کے مسائل پوچھتے ، بلوچستان میں امن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔سابق وزیر اعلیٰ جام کمال کی حکومت خود سیاسی انتشار کا شکار ہوئی ، اُن کے اپنے ساتھی اُن کا ساتھ چھوڑگئے جس کی بناء پر بلوچستان میں سیاسی تبدیلی واقع ہوئی ۔ یہ بھی کہا گیا کہ بلوچستان کی لیڈر شپ کا تعلق بالا دست طبقے سے ہے ۔
 بلوچستان کو سرداروں کی نہیں غمخواروں کی ضرورت ہے ، بلوچستان کے عام آدمی کو طاقت دینے کے ساتھ ساتھ عوامی قیادت پیدا کرنے کی ضرورت ہے ، نوجوانوں کو بہکانے والے وطن دشمنوں کا اصل چہرہ دکھانے کی ضرورت ہے ، بلوچستان معدنی دولت سے مالا مال ہے ، اس کے اپنے وسائل بہت زیادہ ہیں ، این ایف سی ایوارڈ کے نتیجے میں بلوچستان کو مرکز سے بھی فنڈز ملتے ہیں مگر یہ فنڈز عام آدمی کی بہتری یا بلوچستان کی ترقی کی بجائے کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں ، گوادر کے حوالے سے چین دل کھول کر سرمایہ کاری کر رہا ہے، بلوچستان اور پاکستان کی بہتری اس میں ہے کہ بلوچستان میں سرداروں کی بجائے عام آدمی کو مضبوط کر کے بھارت و افغانستان کی سازشوں کو ناکام بنایا جائے ۔

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author