گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔
کبھی آپ نے بکریاں یا بھیڑیں چَرائیں؟ بکریاں چرانے والے کو چرواہا یا shepherd کہتے ہیں۔ گاٶں کے لڑکوں نے چاہے وہ ان پڑھ ہوں یا تعلیم یافتہ بکریاں اور بھیڑیں ضرور چرائ ہوتی ہیں۔ جی ہاں آپ ٹھیک سمجھے میں نے بھی بکریاں اور بھیڑیں چرائی ہیں اور بکری کے بچے پالنے کو تو بے حد شوق ہے۔کہا جاتا ہے کہ بکریاں چرانا آدمی کے اندر لیڈرشپ ۔ ٹالرنس اور چوکس ہونے کی صفات پیدا کرتا ہے۔ گاٶں میں رہنے والے اکثر لوگ بکریاں پالتے اور چراتے بھی ہیں۔ جب آپ بکریاں لے کر چلتے ہیں تو وہ دائیں بائیں بھاگنے کی کوشش کرتی ہیں اور ان کو ایک ڈسپلن میں رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اگر آپ بکریوں کی نفسیات سمجھ جائیں تو آپ کے اندر لیڈرشپ کوالٹی پیدا ہو جاتی ہے۔کیونکہ انسانوں کے لیے بھی اتحاد و یگانگت کے ساتھ رہنا بہت مشکل ہوتا ہے اور ایک باکمال رہنما ان کو ایک متحد قوم بنا کر آگے بڑھتا ہے ۔
آج ہم ڈیرہ اسماعیل خان کی صورت حال دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے لوگ کسی ایک لیڈرشپ پر جمع نہیں۔ سیاسی پارٹیاں لوگوں کے اندر شعور اور ترقی کا جزبہ پیدا کرنے کے لیے ہوتی ہیں مگر ہمارے ہاں یہ ایک دوسرے کی ازلی دشمنی کے لیے ہیں۔ مذھبی مسالک ایک دوسرے سے محبت کی بجاۓ فرقہ بندی کے طرف چل پڑے۔ ذات اور برادریوں پر فخر علیحدہ انتشار پیدا کرتا ہے۔ علاقے اور زبان کا تعصب بار بار ابھر پڑتا ہے۔
بس ایک نکتہ جس پر ہم جم کے کھڑے نہیں ہو رہے وہ ہے ایک امت کا اتحاد۔ ایک مسلمان۔ایک انسان کا تصور۔ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ شکلیں تو جدا جدا ہیں مگر سب کے خون کا رنگ تو ایک ہے۔
آج ہم ایک بے سمت بکھرا ہوا گم شدہ بھیڑ بکریوں کا ریوڑ ہیں جن کا چرواہا نظر نہیں آ رہا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ