ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھوے سے کھوا چھل رہا ہو، بے ہنگم ٹریفک ہر طرف سے ابل رہی ہو، موٹر سائیکل سوار بیچوں بیچ راستہ بناتے ہوں، چلتی گاڑیوں کی پروا کیے بغیر لوگ باگ بے دھڑک سڑک پار کرتے ہوں، لال بتی کا اشارہ بنا کسی شرمندگی کے توڑا جا رہا ہو، ٹریفک کانسٹیبل سب کچھ دیکھ کر لاپرواہی سے منہ پھیر لیتا ہو، ٹوٹے پھوٹے رکشوں کو دھکے لگ رہے ہوں، گداگر سیاحوں کی تاک میں ہوں، فٹ پاتھ پر کتابیں سجی ہوں، سڑک کنارے بھٹے بھونے جا رہے ہوں، تیز رفتار خستہ حال بسوں اور ویگنوں میں سواریاں اٹھانے کا مقابلہ جاری ہو، بس ڈرائیور ہارن پہ ہاتھ رکھ کر اٹھانا بھول جائیں، بسوں میں بلند آواز میں میں میوزک بج رہا ہو، مٹی دھول کی ہر طرف کمی نہ ہو، تو آپ یہی سوچیں گے نا کہ بھئی قاہرہ تو لاہور جیسا ہی ہے۔
بس فرق ہے تو ایک، وہاں بلند آہنگ لہجے میں پنجابی بولی جا رہی ہو گی اور یہاں عربی۔ وہاں دوکانوں کے بورڈ انگریزی میں ہوں گے اور یہاں عربی میں۔ ارے نہیں ہم بھول رہے ہیں، ایک بورڈ ہمیں انگریزی زبان میں بھی نظر آیا تھا جس پہ جلی حروف میں ہمارا نام لکھا تھا۔ بھئی ائیر پورٹ پہ ہوٹل لے جانے والے ایسے ہی گمنام مہمانوں کو پہچانتے ہیں۔
اچھا جناب یہ قاہرہ ہی ہے لیکن بہت ہی گنجان، جیسے چاروں طرف کنکریٹ کا ایک جنگل اگا ہو۔ایسا جنگل جس میں ہریالی نام کو بھی نہ ہو۔ ہر گلی، ہر سڑک پہ پندرہ بیس منزلہ عمارات۔ اطراف کی گلیوں میں، دائیں بائیں آگے پیچھے، گویا کسی نے بہت سے ڈبے قطار اندر قطار کھڑے کر دیے ہوں۔ جدھر نظر اٹھاؤ، مٹیالے گرد میں اٹے کابک نما فلیٹ، رنگ و روغن سے محروم، کھڑکی میں اے سی یا کولر، بالکنی کے جنگلے پہ سوکھتے کپڑوں کا تہہ در تہہ ڈھیر۔
کسی کھڑکی پہ بد رنگ سا پردہ، کسی پہ خستہ چلمن اور کسی پہ کچھ نہیں۔ کسی کا شیشہ ٹوٹا ہوا، کسی کی زنگ آلود ریلنگ اور اس کے ساتھ رکھے ہوئے مرجھائے ہوئے پودوں کے کچھ گملے۔ کہیں کسی کھڑکی سے جھانکتا ننھا بچہ، کہیں بالکنی پہ کپڑا اٹکا کر انہیں گرنے سے بچانے کی فکر میں غلطاں عورت، کہیں کوئی بڈھا اخبار میں سر دیے ہوئے۔ لیجیے ان فلیٹس نے ہمیں کراچی کی یاد دلا دی۔
سفر کرتے ہوئے فلیٹس سے ہماری توجہ ہٹی تو بہت کچھ ایسا تھا جو ہمارے لبوں پہ مسکراہٹ بکھیر گیا۔ سڑک کے کنارے کنارے دیواروں پہ لکھے اشتہار ویسے ہی تھے جیسے وطن عزیز میں نظر آتے ہیں۔ عربی زبان پہ بہت زیادہ دسترس نہ ہونے کا یہ تو نقصان ہوا کہ اب ہم آپ کو یہ نہیں بتا سکیں گے کہ مردانہ کمزوری، حکیموں کے نسخے اور بلند و بانگ دعووں میں کچھ انوکھا بھی تھا یا وہی جھوٹی سچی کہانیوں کا ملغوبہ جس سے متاثر ہو کر بہت سے سادہ لوح ان کے سیلن زدہ مطب جا پہنچتے ہیں اور سلاجیت کھا کر اور کچھ ہو نہ ہو، گردے فیل کروا لیتے ہیں۔
تھوڑا اور آگے بڑھے تو پنڈی کا صدر بازار یاد آگیا۔ یقین جانیے، فٹ پاتھ پہ کپڑا بچھا کے دنیا کی ہر چیز بکنے کے لئے رکھی تھی۔ اور مزے کی بات یہ کہ انداز بھی ویسا ہی، بے نیازی اور اک شان استغنا… لینا ہے تو لو نہیں تو جاؤ ہمیں دھوپ سینکنے دو۔
لیجئے مری روڈ بھی نظر آگئی۔ جس طرح وہاں سب کچھ توڑ پھوڑ کے اسلام آباد میٹرو بچھائی گئی ہے، اسی حجم اور ڈیزائن کے بدنما ستون یہاں بھی رستہ گھیرے کھڑے تھے۔ جگہ نہ دینے والی سب بلڈنگوں کے بیرونی چھجے توڑے جا چکے تھے۔ کسی کسی فلیٹ کی کھڑکی تو اس قدر قریب تھی کہ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے کھڑکی پہ دستک دی جا سکتی تھی۔ یک لخت ہاتھ اٹھا اور دوسرے ہی لمحے ہم نے خود کو گھر کا…. ارے کیا نادانی ہے یہ، بالوں میں چاندی چمک رہی ہے اور ہری ہری سوجھ رہی ہے وہ بھی ایک اجنبی ملک میں جہاں کی زبان سے اتنی شناسائی نہیں کہ کھڑکی کھولنے والے کو ہم سمجھا سکیں کہ سیاحوں کے پاس تجسس اور حیرت کا خزانہ ہی تو ہوتا ہے جو انہیں جہاں گردی پہ مجبور کرتے ہوئے اپنے ساتھ لئے پھرتا ہے۔
جامعہ الازہر کے سامنے خان الخلیلی بازار تو بس ریشم گلی ہی ہے، جی ہاں وہی اپنی حیدرآباد والی ریشم گلی۔ چاندی کے زیورات، علاقائی نوادرات، کڑھائی والے کپڑے، رلی کے رنگا رنگ ڈیزائن…. آوازیں لگاتے دکاندار، مرد و زن اپنی اپنی دھن میں… الف لیلوی سا ماحول …. ایک فرق ضرور ہے، نجیب محفوظ کے کیفے جیسا کچھ نہیں ریشم گلی میں… کاش ہوتا تو کوئی مصر کی رہنے والی ریشم گلی میں کیفے ڈھونڈ رہی ہوتی اور پھر پہروں وہاں بیٹھتی… یہ سوچتے ہوئے کہ لفظ اور خیال کا تانا بانا اس ماحول میں ادیب پہ کیسے اترتا تھا؟ ویسے حیدر آباد سے ہمیں امر سندھو یاد آ گئیں۔ وہ بھی ہماری طرح کچھ دیوانی سی ہیں اور اب ہم “خوب گزرے گی” کے انتظار میں گھڑیاں گن رہے ہیں۔
سڑک پر کھڑے ہو جائیں تو رینگتی ہوئی ٹیکسیاں سواری کی امید میں اور منتظر آنکھوں کے ساتھ ہارن بجاتے ٹیکسی ڈرائیور بھی کچھ اپنے جہاں کے ہی تھے۔ بیٹھنے پہ البتہ فرق کا اندازہ ہوا کہ زیادہ تر ٹیکسیاں خستہ حال تھیں۔ عین ممکن ہے ان کے یہاں پیلی ٹیکسی سکیم کبھی نہ رہی ہو۔
اور بھئی یہ آخری بات جو ہم بتانے جا رہے ہیں اس کے بعد تو مصر کے بازار کو اپنا ہی بازار سمجھیے۔ سڑک کنارے ایک چھوٹے ریسٹورینٹ کے باہر شوارما مشین پر ایک صاحب لمبی ٹوپی اور دستانے چڑھائے تیزی سے حسب فرمائش شوارما بنانے میں مصروف تھے۔ ہم بھی امیدوار ٹھہرے۔ نہ جانے وہ شوخی کا شکار ہوئے یا گھبراہٹ کا مگر شوارما بناتے بناتے پیٹھ کھجانے سے نہ رہ سکے۔
جب وہ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے تو ہم کیسے باز آتے۔ مینیجر کو بلا کر انگریزی اور عربی میں حفظان صحت کے اصولوں اور صفائی نصف ایمان پر ہمارا لیکچر تو کھڑے کھڑے سننا پڑ گیا سب کو……جی لیکچر وہ بھی نیل کے کنارے۔ مینیجر صاحب نے تو “ انا آسفہ انا آسفہ” ( معذرت) کہہ کر جان چھڑاتے ہوئے ہمیں رخصت کیا مگر کھجلی صاحب کی شعلہ بار آنکھوں نے کافی دور تک ایک غیر ملکی عورت کا تعاقب کیا۔
(مصر یاترا جاری ہے۔)
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر