نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مولانا فضل الرحمن کی سیاسی جدوجہد ۔۔۔ ||ملک سراج احمد

سیاسی جدوجہد کا راستہ نہیں چھوڑا اور2002 میں جنرل مشرف کی امریکہ نواز پالیسیوں کے خلاف دینی جماعتوں کا اتحاد ایم ایم اے بنایا اور عام انتخابات میں حصہ لیا۔انتخابات میں کامیابی ملی اور کے پی کے میں صوبائی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے

ملک سراج احمد

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کے سبب ہونے والی مہنگائی کے خلاف سیاسی جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم سراپااحتجاج ہے ۔اس ضمن میں پی ڈی ایم ملک بھر میں احتجاجی جلسے اور ریلیاں منعقد کر رہی ہے ۔اور اسی سلسلے کا ایک احتجاجی جلسہ 31 اکتوبر کو ڈیرہ غازی خان میں ہونے جارہا ہے ۔پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے ورکرز جلسہ کامیاب کرانے کے لیے میٹنگز کررہے ہیں ۔شہر کو خیرمقدمی بینرز اور ہورڈنگز سے سجایا جارہا ہے ۔سیاسی فضا میں ہلچل ہے اور سیاسی حلقوں میں اس جلسے کے حوالے سے گفتگو بھی جاری ہے ۔پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کی محنت اپنی جگہ مگر جے یو آئی (ف) ڈیرہ غازی خان کا جوش و خروش عروج پر ہے اور فی الحال یہ تنظیم انتظامات اور تیاریوں کے حوالے سے چھائی ہوئی ہے ۔
جلسےمیں پی ڈی ایم کی قیادت شرکت کرئے گی مگر آج کی تحریر جے یو آئی کے قائد مولانا فضل الرحمن سے متعلق ہے ۔مولانا پی ڈی ایم کےبھی سربراہ ہیں۔تاریخ اور سیاست کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے مولانا کی شخصیت اور سیاست نے مجھےہمیشہ متاثر کیا ہے ۔ایک دینی جماعت کے سربراہ کا سیاسی ویژن اتنا وسیع ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی سربراہی کررہا ہے۔دینی جماعت کا سربراہ ہونے کے باوجود جمہوریت کی جنگ جس طرح مولانا نے لڑی ہے اس کی تعریف ہر جمہوریت پسند کرئے گا۔جنرل ضیا کے خلاف جب ایم آر ڈی کی تحریک چلی تو مولانا فضل الرحمن شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ صف اول کے رہنماوں میں شریک تھے ۔گرفتار ہوئے اور دو سال کی جیل کاٹی مگر جمہوریت قائم کرنے کے مطالبہ سے دستبردار نہیں ہوئے ۔جمہوریت کی بقا کی خاطر مولانا کی زندگی کا یہ پہلو انتہائی شاندار ہے اور اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔
1988 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کا راستہ روکنے کے لیئے سیاسی جماعتوں کا انتخابی اتحاد بنایا گیا اور پھر مختلف سیاسی قائدین کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بھاری مالی امداد دی گئی ۔مگر جن قائدین نے یہ امداد لینے سے انکار کیا ان میں مولانا شاہ احمد نورانی ، ولی خان کے بعد تیسرا نام مولانا فضل الرحمن کا ہے۔اس طرح کی رقم کو ٹھکرا دینا انسان کے کردار کی بلندی کو ظاہر کرتا ہے۔اور اس کے باوجود مولانا پہلی بار ڈیرہ اسماعیل خان کے حلقہ سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوگئے اور یوں مولانا کی قومی سطح کی سیاست کا آغاز ہوا۔اور اس کے بعد کی ہر حکومت میں مولانا فضل الرحمن کے سیاسی کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔مولانا اقتدارکا حصہ رہے یا اپوزیشن کی بینچوں پر بیٹھے رہے ان کی مدلل گفتگو ، سیاسی بیانات ، فلور پر تقاریر آئین اور جمہوریت کی پاسداری کے حوالے سے ریکارڈ پر ہیں۔
مولانا کا سیاسی سفر کبھی بھی آسان نہیں رہا۔19 جون 1953 کو ڈیرہ اسماعیل خان کے نواحی علاقہ عبدالخیل میں پیدا ہوانے مولانا فضل الرحمن نے ابتدائی تعلیم مقامی دینی مدرسہ جامعہ حقانیہ میں حاصل کرنے کے بعد پشاور یونیورسٹی سے 1983 میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد مصر کی جامعتہ الاظہر سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی ۔تاہم اپنے والد گرامی مفتی محمود کی وفات کے بعد 1980 میں ستائیس سال کی عمر میں جب پارٹی کا جنرل سیکرٹری بنایا جانے لگا تو پارٹی دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی اور درخواستی گروپ الگ ہوگیا ۔تاہم مولانا نے ہمت نہیں ہاری اور ایک وقت آیا کہ مولانا نے اپنے انتخاب کو درست ثابت کردکھایا۔اور آج ان کی جماعت ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی صف میں کھڑی ہے
لیکن یہاں تک پہنچنے کے لئے مولانا کو جدوجہد کرنی پڑی ۔جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالا تو قاضی حسین احمد اور مولانا فضل الرحمن کو آرٹیکل چھ یعنی بغاوت کی دفعہ کے تحت چھ ماہ کے لیے نظر بند کردیا ۔مگر مولانا اس مشکل سے بھی نکل گئے ۔سیاسی جدوجہد کا راستہ نہیں چھوڑا اور2002 میں جنرل مشرف کی امریکہ نواز پالیسیوں کے خلاف دینی جماعتوں کا اتحاد ایم ایم اے بنایا اور عام انتخابات میں حصہ لیا۔انتخابات میں کامیابی ملی اور کے پی کے میں صوبائی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے ۔بلاشبہ دینی جماعتوں کے اتحاد کی یہ بڑی کامیابی تھی۔
2018کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کو کامیابی ملی جبکہ اپوزیشن کا اتفاق ہےکہ یہ کامیابی دلائی گئی اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے وزیراعظم عمران خان کو سلیکٹڈ کا خطاب دےدیا۔حکومتی پالیسیوں کے نتیجہ میں 2019 میں27اکتوبر کوکراچی سے شروع ہونے والایہ مارچ پانچ روز بعد اسلام آباد پہنچ گیا۔اس آزادی مارچ کے پرامن ہونے کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ۔پہلی بار پتہ چلا کہ مولانا کی اپنے ورکرز پر گرفت کتنی مضبوط ہے۔مولانا فضل الرحمن نے تن تنہا اس مارچ کی قیادت کرکے اسلام آباد پہنچ کر ثابت کردیا کہ ان کا شمار ملک کے صف اول کے سیاسی رہنماوں میں ہوتا ہے۔
آزادی مارچ سے مولانا کی مذاحمت کی سیاست رنگ لائی اور ستمبر 2020 میں اپوزیشن کی گیارہ سیاسی جماعتوں کا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ پی ڈی ایم کے نام سے بنا ۔مولانا فضل الرحمن کو اس اتحاد کا سربراہ بنایا گیا۔پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ملک بھر میں مہنگائی کے خلاف احتجاجی جلسوں کا سلسلہ شروع کیا گیا ۔اسی سلسلے میں ایک جلسہ ڈیرہ غازی خان میں بھی ہورہا ہے۔اور جے یو آئی کی تیاریوں کو دیکھتےہوئے توقع کی جارہی ہے کہ یہ ایک کامیاب جلسہ ہوگا۔

حرف آخر یہ کہ کوئی شخص مولانا فضل الرحمن کی سیاست اور سیاسی نظریات سے اتفاق کرئے یا نا کرئے مگر وہ مولانا کی جمہوریت کی خاطر جدوجہد سے انکار نہیں کرسکتا۔آئین کی پاسداری اور اداروں کے آئینی کردار کے حوالے سے مولانا کے دلائل کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہے۔مولانا فضل الرحمن عصر حاضر کی دستیاب سیاسی قیادت میں اپنے ویژن اور اصولی سیاست کے حوالے سے ایک الگ پہچان اور خاص مقام رکھتے ہیں۔سیاسی مخالفین بھلے ہدف تنقید بنائیں مگر مولانا فضل الرحمن کی جمہوریت کی خاطر قید وبند کی صعوبتوں اور عملی طورپر اصولی مذاحمتی سیاست سے انکار نہیں کرسکتے۔

مصنف سے رابطہ کیلئے 03334429707
وٹس ایپ 03352644777

یہ بھی پڑھیے:

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

ملک سراج احمد کے مزید کالم پڑھیے

About The Author