دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہمارے حالات بُرے ہیں، تو کس کے اچھے ہیں||رضاعلی عابدی

حزبِ اختلاف کا تو کام ہی ہے شور مچانا۔مگر پاکستان کی حزب اختلاف نے تو وہ شور اٹھایا ہے کہ کیا سوتے میں اور کیا جاگتے میں ، ایک ہی بات ذہن کے کسی نہ کسی گوشے میں گونجی جائے ہے کہ پاکستان میں حالات بُرے ہیں۔رات دن کی مسلسل تکرار سننے کے بعد میں جو پچاس سال سے برطانیہ میں آباد ہوں ، خود سے یہی سوال کرتا ہوں کہ اگر پاکستان میں حالات خراب ہیں تو وہ کون سی جگہ ہے جہاں حالات اچھے ہیں؟ جب ہم حالات کے اچھے یا برے ہونے کی بات کرتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ حالات کی تصویر ہر علاقے اور ہر خطے میں اپنی اپنی بنتی ہے۔ شام میں حالات کی کیفیت الگ ہے اور اٹلی میں جدا۔ نائیجیریا میں حالات بُرے ہوں تو ان کی نوعیت مثال کے طور پر اردن کے برے حالات سے بالکل جداگانہ ہوتی ہے۔یہاں جو مثال میرے سامنے پنجے گاڑے کھڑی ہے وہ برطانیہ کی ہے۔ اگر اہل پاکستان مجھ سے پوچھیں کہ برطانیہ میں حالات کیسے ہیں؟ میں کہوں گا :بُرے۔پہلی بات جو ہر اچھے برے علاقے پر صادق آتی ہے،یہ ہے کہ بنی نوع انسان کی معلوم تاریخ میں کورونا نام کی جان لیوا وبا نے کبھی اور کہیں سر نہیں اٹھایا۔ وبائیں بہت پھیلیں ، بارہا پھیلیں اور مزید پھیلیں گی لیکن انسان کے ہزاروں سال کے تجربے میں کورونا جیسی وبا کا کہیں حوالہ نہیں ملتا جس سے انسان نے کچھ سیکھا ہو اور جس کا اُسے تجربہ رہا ہو۔وبا تو بس کہیں سے نکلی اور اس نے ساری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا۔ اس نے انسان کو مارا ، سمجھ میں آتا ہے مگر اس نے جینے کے ڈھنگ کی صورت بگاڑ کر رکھ دی۔ وہ جو روز مرہ کا نظام چلا کرتا تھا اس کی چال بے ڈھب ہوگئی، اس کے قدم لڑکھڑانے لگے اور بارہا یوں لگا کہ نظام زندگی کی دیوار اب گری اور اب گری۔یہ سب سمجھ سے باہر ہے۔ برطانیہ کا معاملہ پاکستان سے جد انہیں۔ بجلی کے نرخ بڑھنے کو ہیں، گیس کی قلّت سر پر کھڑی ہے، ہر شے مہنگی ہور ہی ہے۔ اشیا بنانے والوں نے پرانی قیمت برقرار رکھنے کیلئے مال کے پیکٹ، ڈبّے اور بوتلیں چھوٹی کردی ہیں۔پٹرول میں تو عملاً آگ لگی ہے، فی بیرل کا حساب رکھنے والے حیران ہیں کہ تیل کی قیمتیں کہاں رکیں گی۔ گیس کے بارے میں تو لوگوں کو خبر دار کردیا گیا ہے کہ آنے والے جاڑوں کی خیر منائیں۔ان تمام علتوں کے بعد قدرت بھی اپنی چال بدلنے کو ہے،دنیا کا موسم اپنے تیور بدل رہا ہے۔ اس سال درختوں پر کچھ پھل آئے ہی نہیں۔ ٹھنڈے علاقوں میں موسم گرما کی فصلیں اُگ رہی ہیں، قطبین میں لاکھوں برسوں سے جمی ہوئی برف پگھل رہی ہے۔شہزادہ چارلس پچھلے دنوں یہ کہتے سنے گئے کہ لوگوں کو اپنی زمین سے زیادہ خلا کی فکر ہے کہ لوگ بھاری خرچ اٹھا کر تفریح کی غرض سے خلا کے سفر پر جانے لگے ہیں ۔تصور کیجئے کہ برطانیہ میں چھ سال سے زیادہ پرانی کاریں وسطی لندن میں داخل نہیں ہو سکیں گی یا بھاری رقم ادا کرنی پڑے گی۔بدلتے حالات اپنے ساتھ ایسے ایسے کتنے ہی عذاب لے کر آرہے ہیں۔ دشواریاں بڑھتی جارہی ہیں، ایک اور غضب یہ ہوا ہے کہ اس پڑھے لکھے معاشرے میں جہاں ہر ذی شعور نے سارے ٹیکے لگوالئے ہیں اس کے باوجود کورونا پھر سے پھوٹ پڑا ہے۔کہاں تو ہر روز مرنے والوں کی تعداد چھ سات رہ گئی تھی ، کہاں کورونا کا لقمہ بننے والوں کی تعداد دو سو یومیہ ہوجائے تو تعجب نہیں ہوگا۔ کہتے ہیں کہ جاڑے اس بارخدا جانے کب کا حساب چکائیں گے اور خاص طور پر کتنے معمر مریض لقمہ اجل بنیں گے۔کیا ان تمام آفتوں کا الزام حکومت کے سر پر دھریں؟ کیا لیبر پارٹی کو چاہئے کہ آپے سے باہر ہوجائے اور ٹوری پارٹی کی حکومت کی بنیادوں میں بارود لگائے۔کیا حکومت کو تبدیل کرنا ہی ہر مسئلے کا حل ہے، کیا ہر وہ حکومت نالائق، نا اہل، جاہل اورخدا جانے کیا کیا ہے جو آپ کی نہیں؟یہ رویہ سمجھ میں آتا ہے مگر اس میں حد سے بڑھی ہوئی شدّت سمجھ میں نہیں آتی۔چلئے مانا کہ موجودہ حکومت جو کچھ بھی کر رہی ہے غلط ہے تو کوئی بتائے کہ پھر صحیح کیا ہے۔ متبادل کیا ہے، علاج کیا ہے، دوا کیا ہے؟ اس پر یاد آیا کہ دوا کے معاملے میں منافع خوروں نے سارے نئے پرانے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ مریضوں، معذوروں اور لاچاروں کی بےبسی سے منافع نچوڑنا یقیناً بھاری جرم ہے اور اس کی معافی نہیں مگر اس کا یہ علاج بھی نہیں کہ حکومت کو کان پکڑ کر مسند اقتدار سے اتار دیا جائے اور کسی دوسرے کو بٹھا دیا جائے کہ وہ جو کچھ کرے گا، وہ تاریخ بارہا دکھا چکی ہے۔اس کی سند تاریخ سے ملتی ہے۔سب کہتے ہیں کہ ہمارا زمانہ اچھا تھا۔ اگر اچھا ہوتا تو ،خلقت آپ کو سر پر بٹھاتی، چومتی اور آنکھوں سے لگاتی۔ایسا دوسرو ں کے ہاں ہوتا ہوگا، ہمارے ہاں تو ایسی نہ کوئی ریت ہے نہ روایت۔سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی مقبولیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر آئین میں پابندی نہ ہوتی تو کلنٹن عمر بھر صدر رہتے۔ ہنسی آتی ہے ایسی باتیں سن کر، اور رونا بھی۔

رضاعلی عابدی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حزبِ اختلاف کا تو کام ہی ہے شور مچانا۔مگر پاکستان کی حزب اختلاف نے تو وہ شور اٹھایا ہے کہ کیا سوتے میں اور کیا جاگتے میں ، ایک ہی بات ذہن کے کسی نہ کسی گوشے میں گونجی جائے ہے کہ پاکستان میں حالات بُرے ہیں۔رات دن کی مسلسل تکرار سننے کے بعد میں جو پچاس سال سے برطانیہ میں آباد ہوں ، خود سے یہی سوال کرتا ہوں کہ اگر پاکستان میں حالات خراب ہیں تو وہ کون سی جگہ ہے جہاں حالات اچھے ہیں؟ جب ہم حالات کے اچھے یا برے ہونے کی بات کرتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ حالات کی تصویر ہر علاقے اور ہر خطے میں اپنی اپنی بنتی ہے۔ شام میں حالات کی کیفیت الگ ہے اور اٹلی میں جدا۔ نائیجیریا میں حالات بُرے ہوں تو ان کی نوعیت مثال کے طور پر اردن کے برے حالات سے بالکل جداگانہ ہوتی ہے۔یہاں جو مثال میرے سامنے پنجے گاڑے کھڑی ہے وہ برطانیہ کی ہے۔ اگر اہل پاکستان مجھ سے پوچھیں کہ برطانیہ میں حالات کیسے ہیں؟ میں کہوں گا :بُرے۔

پہلی بات جو ہر اچھے برے علاقے پر صادق آتی ہے،یہ ہے کہ بنی نوع انسان کی معلوم تاریخ میں کورونا نام کی جان لیوا وبا نے کبھی اور کہیں سر نہیں اٹھایا۔ وبائیں بہت پھیلیں ، بارہا پھیلیں اور مزید پھیلیں گی لیکن انسان کے ہزاروں سال کے تجربے میں کورونا جیسی وبا کا کہیں حوالہ نہیں ملتا جس سے انسان نے کچھ سیکھا ہو اور جس کا اُسے تجربہ رہا ہو۔وبا تو بس کہیں سے نکلی اور اس نے ساری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا۔ اس نے انسان کو مارا ، سمجھ میں آتا ہے مگر اس نے جینے کے ڈھنگ کی صورت بگاڑ کر رکھ دی۔ وہ جو روز مرہ کا نظام چلا کرتا تھا اس کی چال بے ڈھب ہوگئی، اس کے قدم لڑکھڑانے لگے اور بارہا یوں لگا کہ نظام زندگی کی دیوار اب گری اور اب گری۔یہ سب سمجھ سے باہر ہے۔ برطانیہ کا معاملہ پاکستان سے جد انہیں۔ بجلی کے نرخ بڑھنے کو ہیں، گیس کی قلّت سر پر کھڑی ہے، ہر شے مہنگی ہور ہی ہے۔ اشیا بنانے والوں نے پرانی قیمت برقرار رکھنے کیلئے مال کے پیکٹ، ڈبّے اور بوتلیں چھوٹی کردی ہیں۔پٹرول میں تو عملاً آگ لگی ہے، فی بیرل کا حساب رکھنے والے حیران ہیں کہ تیل کی قیمتیں کہاں رکیں گی۔ گیس کے بارے میں تو لوگوں کو خبر دار کردیا گیا ہے کہ آنے والے جاڑوں کی خیر منائیں۔

ان تمام علتوں کے بعد قدرت بھی اپنی چال بدلنے کو ہے،دنیا کا موسم اپنے تیور بدل رہا ہے۔ اس سال درختوں پر کچھ پھل آئے ہی نہیں۔ ٹھنڈے علاقوں میں موسم گرما کی فصلیں اُگ رہی ہیں، قطبین میں لاکھوں برسوں سے جمی ہوئی برف پگھل رہی ہے۔شہزادہ چارلس پچھلے دنوں یہ کہتے سنے گئے کہ لوگوں کو اپنی زمین سے زیادہ خلا کی فکر ہے کہ لوگ بھاری خرچ اٹھا کر تفریح کی غرض سے خلا کے سفر پر جانے لگے ہیں ۔تصور کیجئے کہ برطانیہ میں چھ سال سے زیادہ پرانی کاریں وسطی لندن میں داخل نہیں ہو سکیں گی یا بھاری رقم ادا کرنی پڑے گی۔

بدلتے حالات اپنے ساتھ ایسے ایسے کتنے ہی عذاب لے کر آرہے ہیں۔ دشواریاں بڑھتی جارہی ہیں، ایک اور غضب یہ ہوا ہے کہ اس پڑھے لکھے معاشرے میں جہاں ہر ذی شعور نے سارے ٹیکے لگوالئے ہیں اس کے باوجود کورونا پھر سے پھوٹ پڑا ہے۔کہاں تو ہر روز مرنے والوں کی تعداد چھ سات رہ گئی تھی ، کہاں کورونا کا لقمہ بننے والوں کی تعداد دو سو یومیہ ہوجائے تو تعجب نہیں ہوگا۔ کہتے ہیں کہ جاڑے اس بارخدا جانے کب کا حساب چکائیں گے اور خاص طور پر کتنے معمر مریض لقمہ اجل بنیں گے۔کیا ان تمام آفتوں کا الزام حکومت کے سر پر دھریں؟ کیا لیبر پارٹی کو چاہئے کہ آپے سے باہر ہوجائے اور ٹوری پارٹی کی حکومت کی بنیادوں میں بارود لگائے۔کیا حکومت کو تبدیل کرنا ہی ہر مسئلے کا حل ہے، کیا ہر وہ حکومت نالائق، نا اہل، جاہل اورخدا جانے کیا کیا ہے جو آپ کی نہیں؟یہ رویہ سمجھ میں آتا ہے مگر اس میں حد سے بڑھی ہوئی شدّت سمجھ میں نہیں آتی۔

چلئے مانا کہ موجودہ حکومت جو کچھ بھی کر رہی ہے غلط ہے تو کوئی بتائے کہ پھر صحیح کیا ہے۔ متبادل کیا ہے، علاج کیا ہے، دوا کیا ہے؟ اس پر یاد آیا کہ دوا کے معاملے میں منافع خوروں نے سارے نئے پرانے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ مریضوں، معذوروں اور لاچاروں کی بےبسی سے منافع نچوڑنا یقیناً بھاری جرم ہے اور اس کی معافی نہیں مگر اس کا یہ علاج بھی نہیں کہ حکومت کو کان پکڑ کر مسند اقتدار سے اتار دیا جائے اور کسی دوسرے کو بٹھا دیا جائے کہ وہ جو کچھ کرے گا، وہ تاریخ بارہا دکھا چکی ہے۔اس کی سند تاریخ سے ملتی ہے۔سب کہتے ہیں کہ ہمارا زمانہ اچھا تھا۔ اگر اچھا ہوتا تو ،خلقت آپ کو سر پر بٹھاتی، چومتی اور آنکھوں سے لگاتی۔ایسا دوسرو ں کے ہاں ہوتا ہوگا، ہمارے ہاں تو ایسی نہ کوئی ریت ہے نہ روایت۔سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی مقبولیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر آئین میں پابندی نہ ہوتی تو کلنٹن عمر بھر صدر رہتے۔ ہنسی آتی ہے ایسی باتیں سن کر، اور رونا بھی۔

 

بشکریہ جنگ

مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی

کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی

جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی

رضا علی عابدی کی دیگر تحریریں پڑھیے

About The Author