وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرسوں شام سے میں بھی ڈینگی بخار میں مبتلا ہوں۔ سرخ اور سفید جسیمے ٹوٹنے کے مسلسل عمل کے سبب ٹمپریچر کم زیادہ تو ہو رہا ہے مگر جا نہیں رہا۔
پہلے میں نے سوچا کہ اس ڈینگی کا الزام سرکاری نااہلی پر لگا دوں لیکن پھر سوچا کہ کیا فائدہ۔ ڈینگی بھی موجودہ حکومت کو دیگر تین لاکھ مسائل کی طرح پچھلی حکومتوں سے ورثے میں ملا ہے اور جو شے ورثے میں ملی اسے ختم نہیں کیا جاتا بلکہ سینت سینت کے رکھا جاتا ہے۔
’ایک سالا مچھر آدمی کو ہیجڑہ بنا دیتا ہے۔۔۔‘ یہ نانا پاٹیکر کا مشہور فلمی جملہ ہے۔ لہذا اسے لے کر سیاسی درستگی ( پولٹیکل کریکٹ نیس) کے بہانے میرے پیچھے نہ پڑا جائے تو آپ کی بہت مہربانی۔
حالانکہ ڈینگی کے دوران اینٹی بائیوٹک دوائیں نہیں دی جا سکتیں۔ صرف درد رفع کرنے والی گولیاں (پین کلرز) ہی استعمال ہو سکتی ہیں مگر احباب نے اس کا بھی توڑ نکال رکھا ہے۔ ڈینگی کے ساتھ ہی ہمدردی کی پیکیجنگ میں بند پر خلوص مشورے بھی برسنا شروع ہو جاتے ہیں۔
میاں پپیتا کھاؤ اور پپیتے کے پتوں کا جوشاندہ بنا کر پیو، فلاں جھاڑی گھر میں رکھو اس سے ڈینگی گھر سے دور رہے گا، اس اس اسم کا ورد کرو، دودن ورد کر لیا تو پلیٹلیٹس برق رفتاری سے بڑھنے لگیں گے۔ جوشاندے کا ساشے لے کر اسے تین جوش دو اور پھر اس میں ذرا سی ہینگ چھڑک دو اور ململ سے چھان کر پی جاؤ، بس پھر اس کے کرشمے دیکھو۔
جب پوچھو کہ بھائی آپ نے بھی اس میں سے کوئی ٹوٹکا کبھی استعمال کیا ہے تو اکثر احباب خفا ہو کر کہتے ہیں ’یعنی آپ چاہتے ہیں کہ ہمیں بھی ڈینگی ہو جائے۔‘ اس کے بعد مریض مجرم اور عیادتی جج لگنے لگتا ہے۔
چونکہ ڈینگی کے سبب ہونے والی ٹوٹ پھوٹ جسم کو کمزور کر دیتی ہے۔ یہ کمزوری کچھ عرصے بعد مزیدار لگنے لگتی ہے۔ جسم ایک مستقل خواب ناکی کی کیفیت میں رہتا ہے۔ بار بار نیند آتی ہے اور بار بار آنکھ کھل جاتی ہے۔
نیند کے مختصر مختصر دورانیوں میں اچھے اچھے خواب بھی آتے ہیں۔ ایسے اچھے اچھے خواب جن کی میڈیا سے تصدیق نہ کی جائے تو اور اچھا ہے۔
مثلاً پچھلے ڈھائی دن میں میرے غنودہ خوابوں کے مطابق آئی ایس آئی کے نئے سربراہ کا نوٹیفکیشن ایوانِ وزیرِ اعظم سے جاری ہو چکا ہے۔ عمران خان نے پورا ایک دن بغیر کوئی رائے یا بیان دیے گزارا۔ شہباز گل نے قسم کھائی کہ آئندہ وہ اپنے کسی بیان میں گالی نہیں دیں گے۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے عہد کیا ہے کہ وہ پاکستان کی تاریخ پر فی البدیہہ گفتگو سے گریز کریں گے۔
امید ہے کہ دو چار دن میں جب ڈینگی کا زور ٹوٹے گا تو میں بھی ہوش و حواس میں آ جاؤں گا۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر