رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنرل ملک کے لیے یہ ایک مشکل صورت حال تھی کیونکہ عموماً آرمی چیف کی اجازت کے بغیر کوئی جنرل وزیر اعظم کو نہیں مل سکتا تھا‘ آرمی چیف کی اجازت کے ساتھ ہی ملاقات ہو سکتی تھی۔ اس لیے جنرل ملک کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اس صورت حال میں کیا کریں جب وزیر اعظم آفس کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ وہ تشریف لے آئیں۔ وہ سوچتے رہے کہ کیا کرنا چاہیے۔ پھر انہوں نے ایک فیصلہ کر لیا اور آرمی چیف جنرل ضیا کو فون کیا تاکہ بتا سکیں کہ انہیں وزیر اعظم آفس بلایا گیا ہے‘ لیکن جنرل ملک کو بتایا گیا کہ جنرل ضیا اپنے دفتر میں موجود نہیں ہیں۔ جنرل ملک نے سوچا‘ اگر جنرل ضیا دفتر میں موجود نہیں تو یقینی طور پر وہ بھی اس وقت وزیر اعظم ہاؤس میں ہوں گے اور اسی لیے انہیں وزیر اعظم آفس سے کہا گیا ہے کہ وہ بھی تشریف لے آئیں۔ انہوں نے سوچا‘ ممکن ہے وزیر اعظم کچھ صلاح مشورہ کرنا چاہتے ہوں۔
وہ وزیر اعظم آفس کو نکل پڑے لیکن وہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ جنرل ضیا الحق وہاں نہیں تھے بلکہ بھٹو صاحب ان سے اکیلے ملنا چاہتے تھے۔ جنرل ملک کو فوراً بھٹو صاحب کے دفتر لے جایا گیا۔ بھٹو صاحب نے بغیر لگی لپٹی کے کہا کہ ملک میں سیاسی صورت حال بہت خراب ہو رہی ہے‘ حالانکہ اپنے تئیں انہوں نے بہت کوشش کی کہ حالات کو سنبھال لیں‘ اور اب بھی ان کی ہر ممکن کوشش ہے کہ صورت حال کو قابو میں رکھیں اور حالات کو نہ بگڑنے دیں۔
پھر اچانک بھٹو نے موضوع بدلا اور جنرل ملک کو کہا کہ وہ جنرل ضیاالحق کی کارکردگی سے خوش نہیں اور سوچ رہے ہیں کہ انہیں ہٹا دیا جائے۔ جنرل ملک یہ سن کر فوراً الرٹ ہو گئے اور انہوں نے وزیر اعظم کو کہا کہ وہ آرمی کے ادارے کے ساتھ یہ کام نہ کریں‘ یہ ریاست کا اہم ادارہ ہے اور پاکستان کے قومی مفادات کا نگران ہے۔ جنرل ملک کی بات بھٹو صاحب کو فوراً سمجھ آ گئی اور وہ چپ ہو گئے۔ بھٹو صاحب کی جنرل ملک سے ملاقات ختم ہو چکی تھی۔ جس کام کے لیے جنرل ملک کو بھٹو نے بلایا تھا وہ شاید نہیں ہو سکا تھا۔ غالباً بھٹو تک کور کمانڈر اجلاس کی کارروائی کا احوال پہنچ گیا تھا‘ جس میں جنرل ضیا نے کور کمانڈرز سے رائے لی تھی اور جنرل عبداللہ ملک واحد تھے جنہوں نے غیر سیاسی حل کی مخالفت کی تھی اور وہ اسی بارے میں بات کرنا چاہتے تھے۔
بھٹو صاحب سے ملنے کے بعد جنرل ملک سیدھے جی ایچ کیو چلے گئے۔ جنرل ضیاالحق دفتر میں موجود تھے۔ جنرل ملک نے انہیں بھٹو صاحب کے ساتھ ملاقات کی تفصیلات بیان کر دیں کہ ان کی وہاں بھٹو صاحب سے کیا بات چیت ہوئی۔ جنرل ملک کی بھٹو سے ہونے والی گفتگو سن کر جنرل ضیا پریشان ہو گئے۔ انہوں نے جنرل ملک کو کہا کہ آپ کو میری اجازت کے بغیر وزیر اعظم کو ملنے نہیں جانا چاہئے تھا۔ اس پر جنرل ملک نے جواب دیا کہ بھٹو صاحب کے دفتر سے فون کال ملنے بعد انہوں نے آرمی چیف کے دفتر کال کی تھی لیکن آپ موجود نہ تھے جس پر انہوں نے سمجھا شاید آپ (جنرل ضیا) پہلے سے بھٹو صاحب کے ساتھ موجود ہیں اور کسی اہم ایشو پر رائے لینے کے لیے انہیں اب وہیں طلب کیا جا رہا ہے۔ جنرل ضیا نے جنرل ملک کو کہا کہ آئندہ وہ وزیر اعظم آفس کی طرف سے ملنے والی ایسی ملاقات کی کال کی پہلے آرمی چیف کے دفتر کو اطلاع دیں گے اور آرمی چیف کی اجازت کے بعد ہی مل سکیں گے‘ اس کے بغیر نہیں۔
پھر کچھ سوچ کر جنرل ضیا نے کہا کہ وہ بھٹو صاحب کے ساتھ اگلی ملاقات میں انہیں خود ہی یہ بات بتا دیں گے کہ پہلے آرمی چیف کو اطلاع دی جائے اور اس کی منظوری سے ملاقات ہونی چاہئے۔ اس واقعہ کے کچھ دنوں بعد چیف آف جنرل سٹاف نے کور کمانڈرز کی ایک کانفرنس میں آرمی کے اگلے سال کے ٹریننگ پروگرام پر ایک بریفنگ دینا تھی۔ جب بریفنگ ختم ہو گئی تو جنرل ضیا نے جنرل عبداللہ خان ملک سے پوچھا: ملک صاحب اب آپ ملٹری آپشن پر کیا کہتے ہیں؟ آرمی چیف سے یہ سوال سن کر جنرل ملک ششدر رہ گئے اور بولے: سر میں چیف آف جنرل سٹاف ہوں‘ تمام انٹیلی جنس ادارے میرے ماتحت کام کرتے ہیں‘ کیا مجھے نہیں معلوم کہ اس وقت کیا ہو رہا ہے؟ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے جنرل ملک نے کہا: مجھے علم ہے کہ اب تک کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں اور کچھ ملاقاتیں تو خفیہ بھی ہوئی ہیں۔ مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ وہاں کیا گفتگو کی گئی۔ میرے علم میں ہے کہ مارشل لاء لگانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اب چونکہ میری رائے مانگی گئی ہے تو میں پھر یہی کہوں گا کہ ہرگز مارشل لاء نہ لگائیں‘ ایسا کرنا مناسب نہ ہو گا۔
جنرل ملک کا یہ جواب سن کر وہاں موجود ہر فرد کو دھچکا لگا۔ وہ سب حیران ہو رہے تھے کہ اگر جنرل ملک کو خفیہ ملاقاتوں کا علم تھا اور سب سے بڑھ کر انہیں یہ بھی پتہ تھا کہ کیا خفیہ منصوبے بنائے جاتے رہے اور یہ فیصلہ بھی ہو چکا کہ بھٹو کا تختہ الٹ دیا جائے گا تو پھر اب تک جنرل ملک نے یہ بات بھٹو صاحب کو کیوں نہیں بتائی۔وہ حیرت زدہ تھے۔
اب واضح تھا کہ چیف آف جنرل سٹاف اور باقیوں کے درمیان ایک بڑی خلیج پیدا ہو چکی تھی۔ اکیلے جنرل ملک کی سوچ اپنے آرمی چیف اور ان کے سات کور کمانڈرز سے بہت مختلف تھی۔ اپنے تئیں جنرل ملک پاکستان اور آرمی دونوں کے مفادات پر اپنا کیریئر قربان کرنے کے لیے تیار ہو چکے تھے۔ انہیں اچھی طرح علم تھا کہ ان حالات میں ڈٹ جانے کا کیا انجام ہو سکتا ہے‘ اور وہی ہوا جس کا جنرل ملک کو اندیشہ تھا۔ اس روز رات کے تین بجے جنرل ملک جب سوئے ہوئے تھے تو انہیں جگایا گیا اور کہا گیا کہ فوراً جی ایچ کیو پہنچیں۔
جب جنرل ملک وہاں پہنچے تو جنرل ضیا پہلے سے ہی آپریشن روم میں موجود تھے۔ کور کمانڈر جنرل چشتی بھی ان کے ساتھ تھے۔ جنرل ملک کو دیکھ کر جنرل ضیا نے کہا: ملک صاحب ہم نے ملک میں مارشل لاء لگا دیا ہے۔ بھٹو صاحب کو برطرف کر دیا گیا ہے۔ جنرل ملک نے جواب دیا: جی مجھے سب علم تھا کہ آج رات کیا ہونے والا ہے لیکن چونکہ آپ سب نے مجھے اس معاملے سے دور رکھا لہٰذا میں آج رات دفتر نہیں آیا تھا۔
اگلے دن جنرل ملک جب جی ایچ کیو گئے تو وہ جنرل ضیا سے ملے اور بتایا کہ موجودہ حالات میں وہ یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ وہ آرمی سے مستعفی ہو جائیں۔ یہ سن کر جنرل ضیا نے اپنے روایتی انداز میں دایاں ہاتھ اپنے سینے پر رکھا اور کچھ جھک کر کہا: نہیں ملک صاحب‘ آپ میرے بہترین افسر ہیں۔ آپ نے ابھی بہت اوپر جانا ہے۔ میں آپ کو کوئٹہ 17 ڈویژن کی کمانڈ کرنے بھیج رہا ہوں۔ جنرل ملک کو علم نہیں تھا کہ جنرل ضیاکے ذہن میں کیا کھچڑی پک رہی ہے اور جنرل ضیا اپنے چیف آف جنرل سٹاف کے حوالے سے کچھ اور پلان بنا چکے تھے‘ ایک ایسا پلان جسے جنرل ملک غالباً ساری عمر نہیں بھول پائیں گے۔ جنرل ضیا نے آنے والے دنوں میں جنرل عبداللہ ملک سے وہ کام لینا تھا جس کا انہوں نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا۔ اس کا اندازہ جنرل ملک کو کچھ عرصے بعد ہوا۔ (جاری)
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ