گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1963 میں صدر ایوب کے زمانے پاکستان پر کوئی قرضہ نہیں تھا اور ہم نے جرمنی کو 25 ملین ڈالر قرضہ فراہم کیا تھا۔
صدر ایوب کے زمانے ہمارے دیہی علاقوں میں بجلی آئی تو ہمارے گھر بجلی کا بل آٹھ آنے ماہوار آتا تھا ۔
اس وقت جوں جوں ہم زیادہ بجلی استعمال کرتے تو فی یونٹ قیمت کم ہوتی چلی جاتی۔یعنی آج سے الٹ۔
اس وقت ہم کچے گھروں میں رہتے تھے مگر خوش تھے کیونکہ ہم ایک آذاد پنچھی کی طرح تھے۔
آج ہمارا معیار زندگی دس گنا بہتر ہو چکا مگر سب قرض کا کرشمہ ہے اور ہماری یہ مستی رنگ لا رہی ہے ۔ ہمارا ہر وہ بچہ بھی مقروض ہے جو ابھی ماں کے پیٹ میں ہے۔ ہماری معیشت آئ آیم ایف کنٹرول کر رہا ہے بار بار کہ رہا ہے سبسڈی ختم کرو ٹیکس بڑھاو گیس بجلی کی قیمت بڑھاو مہنگائ بڑھاو روپے کی قیمت گراو اور غریب کا خون نکال کر قرضے دو۔
یار ویسے سوال یہ ہے کیا ہمیں قرضوں کی ضرورت تھی؟
ہم کچی سڑکوں کچے گھروں ۔سرینھ اور ٹاہلی کی چھاں میں خوش تو تھے پھر کیوں خود کو بیچ ڈالا ۔کیا یہی سحر ہے جس کا انتظار تھا؟
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ