گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
ہمارے بچپن میں پرائمری سکول تک طلبا کے بیٹھنے کے لیے ٹاٹ استعمال ہوتے تھے جو پٹسن کے بنے ہوۓ تھے۔ پٹسن کی پیداوار مشرقی پاکستان میں زیادہ تھی ۔جب وہ بنگلہ دیش بنا تو یہاں پٹسن کی بوریوں کا استعمال کم ہو گیا حالانکہ پٹسن ہمارے علاقے میں بھی کاشت ہو سکتی ہے ۔ میرے سامنے مختلف زمینوں میں پٹ سن کاشت ہوتی تھی۔پھر ان سرسبز ڈنڈیوں کو کاٹ کر پانی میں رکھ دیتے اور وہ نرم ہو جاتی تو اس کی چھال اتار کر رسے بنائے جاتے۔
ٹاٹ ایک تو لمبے عرصے چلتے دوسرا ان پر زیادہ طلباء کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔اب ٹاٹ کی جگہ کہیں کہیں پلاسٹک شیٹ استعمال ہوتی ہیں۔
ٹاٹ سکولوں پر پڑھنے والے پاکستانی طلبا نے زندگی میں بڑے بڑے کارنامے سرانجام دیے ۔وجہ یہ تھی کہ اس وقت تعلیم کا معیار بلند تھا ۔اساتزہ ایماندار تھے ان کی معاشرے میں بڑی عزت تھی۔میرٹ بھی بحال تھا۔
اب ہمارے سکولوں میں فرنیچر آ گیے ۔اساتزہ کی تنخواہیں بہتر ہو گئیں ۔سکولوں میں بلب اور پنکھے لگ گیے مگر معیار تعلیم کا بیڑہ غرق ہو گیا۔ کل جو سی ایس ایس کا رزلٹ نکلا اس کی تفصیل یہ ہے کہ
39650 طلبا نے درخواستیں دیں اور
17240 نے امتحان میں شرکت کی جن میں کل 364 پاس ہوئے۔پاس ہونے کی شرح 2.11% ہے۔
ان 364 پاس لوگوں میں بھی ایک خاص امرا طبقہ کی کثرت ہو گی۔ 1970 تک ہمارے پاس بہت جینیس بیوروکریٹ موجود تھے جنہوں نے ملک کو آگے لے جانے میں بڑا کردار ادا کیا ۔کیونکہ اس وقت تعلیم کا معیار بلند اور میرٹ کی قدر تھی ۔ پھر ہماری تعلیم اور میرٹ کا زوال شروع ہوا اور ملک کو کمزور کر دیا گیا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ