عمید علی حجانہ
………………………
ریاست پاکستان کی سیاست اور سیاسی امور و معاملات میں دلچسپی رکھنے والے پڑھے لکھے، سوجھ بوجھ، سوچ و بچار رکھنے والے افراد کو یاد ہوگا کہ پنڈورا پیپرز کی طرح شور شرابا پانامہ پیپرز کا بھی مچا تھا جن میں 400 سے زائد پاکستانیوں کے نام آئے تھے، جنہوں نے منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری، کرپشن اور بےضابطگیوں کے ذریعے مال پانی بنا کر باہر کے ممالک میں آف شور کمپنیز، اپارٹمنٹس بنائے ہوئے تھے۔ 2016 میں 4 سو سے زائد آنے والے پاکستانیوں کے ناموں میں نمایاں نام اس دور حکومت کے وزیراعظم، پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف اور اس کی فیملی ممبرز کے نام تھے۔
اب کچھ دن پہلے کی ہی بات ہے کہ 3 اکتوبر 2021 کو پاکستان میں لگ بھگ رات کے 9:30 پر پانامہ طرز کا مالیاتی اسکینڈل پنڈورا پیپرز آ ٹپکا۔ صحافی پنڈت اور سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ پنڈورا پیپرز اس ہائبرڈ حکومت کو لے ڈوبے گا، مگر پنڈورا پیپرز آتے ہی پاکستانی مین سٹریم میڈیا نے واویلا تو خوب مچایا مگر پانامہ کی طرح شور و غل اور جھٹ پھٹ کچھ نہ ہو سکا۔ پنڈورا پیپرز کی تفصیلات انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹیگیشن جرنلسٹس( ICIJ) کے مطابق 700 سے زائد پاکستانیوں کے نام بے نقاب ہوئے جن میں زیادہ تر اس بار ریٹائرڈ جرنیلز، میڈیا ھاؤسز کے مالکان، حکومتی وفاقی وزراء، بزنس مین تھے۔ وفاقی وزراء میں سب سے نمایاں وزیر خزانہ شوکت ترین، مونس الہیٰ، سینیٹر فیصل واڈا، مخدوم خسرو بختیار کے بھائی عمر بختیار کے نام قابل ذکر ہیں۔
پانامہ اور پنڈورا پیپرز میں فرق بندہ ناچیز نے جو سمجھا،پڑھا، کچھ سینیئر رپورٹر دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر فیض پایا تو سوچا کہ تحریر کی شکل میں اپنے سادہ الفاظ میں لکھنے کی کوشش کروں۔ کرپشن سے پاک صاف نئے پاکستان تبدیلی کا راگ الاپنے والی سرکار نے جو کچھ پنڈورا پیپرز کے آنے پر کیا قوم کا ہر سیاسی شعور رکھنے والا فرد کبھی نہیں بھولے گا۔ نہ بھولنے کی بنیادی وجہ نیب آرڈیننس ہے جو کہ پنڈورا پیپرز کے آتے ہی حکومت وقت نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قوم پر مسلط کردیا۔ جن کا بنیادی مقصد وفاقی وزراء جن کا نام پنڈورا پیپرز میں آیا انہیں کھلم کھلا این آر او دینا تھا۔ نیب کے آرڈیننس میں نیب کے اختیارات کو محدود کرتے ہوئے حکومت نے جو کارنامہ کرپشن کے خلاف جنگ کرتے ہوئے سر انجام دیا ہے، تاریخ اسے کبھی نہیں بھولے گی۔ اس کے برعکس اگر پانامہ پیپرز پر نظر ڈالیں تو اس وقت کے دور حکومت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنے اور اپنی فیملی ممبرز کے خلاف تحقیات کا آغاز کیا، بطور وزیراعظم نیب میں کیسز کے دوران پیش ہوئے، کئ ماہ میڈیا ٹرائلز کا سامنا کیا کرپشن، غداری اور پتہ نہیں کیا کیا من گھڑت الزامات کی بوچھاڑ برداشت کی۔ کافی ماہ بعد جب کرپشن ثابت نہ ہوئی تو معزز عدلیہ نے اقامے پر دھر لیا اور نااہل کرتے ہوئے وزارت عظمیٰ کی کرسی کھینچ لی۔ فرق تو واضح معلوم ہوگیا کہ لاڈلے نے کس طرح اپنی کابینہ کو نیب آرڈیننس سے این آر او کے ذریعے ریلیف دے دیا اور ایک نام نہاد وزیراعظم انسپکشن کے تحت ایک تحقیقاتی سیل بنا دیا جو کہ وفاقی وزراء اور باقی لوگوں کے خلاف منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری کرپشن پر تحقیات کرے گا۔ وفاقی وزیر شیخ رشید نے صحیح کہا کہ پنڈورا پیپرز ٹائے ٹائے فش ہے۔ کیوں کہ جب ریاست کے اداروں کے سابق سربراہوں کے نام اور اسٹبلشمنٹ کے لاڈلے وزیراعظم کے وزراء پر بات آتی ہے تو ریاستی ادارے اس طرح حرکت میں نہیں آتے جیسے پانامہ پیپرز پر پولیٹیکل انجینرنگ، جے آئ ٹی بناتے ہوئے نظر آئے تھے۔
پانامہ ہو یا پنڈورا سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر کیوں پاکستان کے باسی اس قدر مال و دولت کے چکروں میں پڑ گئے ہیں۔ پانامہ میں 400 سے زائد پاکستانیوں کے نام آنے پر بھی یہ ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ، کرپشن کرکے باہر کے ممالک میں آف شور کمپنیز، فلیٹس بنانے کی ریت و روایات میں کمی نہیں آئی الٹا پنڈورا میں تعداد بڑھ کر 700 سے زائد جا پہنچی۔ آخر کیوں ہم اس قدر مال پانی بنانے میں لگے ہوئے ہیں؟ آخر کیوں ہم نہیں سوچتے کہ مر جانے کے بعد ایک ڈھیلہ بھی کوئی آج تک ساتھ نہیں لے کر گیا ماسوائے کفن کے۔ ہم کیوں اخلاقی، سماجی طور پر اتنا گر چکے ہیں؟ آخر کیوں کرپشن اس ملک میں زور و شور سے ہوتی چلی آرہی ہے؟ ان سوالات کے جوابات شائد سب کو معلوم ہیں مگر بھر بھی ہم مال پانی بنانے میں لگے ہوئے ہیں اور تا قیامت لگے رہیں گے۔
اے وی پڑھو:
طلبہ یونين بحال کرو۔۔۔عبدالہادی بلوچ
سرائيکی صوبہ ناگزیر کیوں۔۔۔عبدالہادی بلوچ
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی