گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔
میرے سامنے کی بات ہے ڈیرہ کی خواتین کپڑوں پر کڑھائ کشیدہ کاری کا خوبصورت کام کرتی تھیں جس سے یہ صدیوں پرانا ہنر بھی زندہ تھا اور لوگوں کی روزی روٹی بھی چل جاتی ۔ اس کے علاوہ افغانی واسکٹوں پر نخشی سے کڑھائ کے اڈے۔چھینبے کی چادریں ۔جوتیوں پر تلہ ۔اور دلھنوں کے کپڑوں پر گوٹہ کناری کا بہترین کام ہوتا تھا۔ ہماری ڈیرہ کی ایک سوشل ورکر ریحانہ فردوس ڈمرہ نے سلائ کڑھائ اور دوسرے ہنر سکھانے کے لیے ایک سنٹر اعجاز آباد مریالی کھول رکھا ہے جو قابل تعریف کوشش ہے اور بھی خواتین کام کر رہی ہونگی جس کا مجھے پتہ نہیں۔۔۔ کچھ کام روائتی انداز میں دیہاتوں میں عورتیں خود کر رہی ہیں جن میں سلائ کڑھائ اور چنگیریں بنانا شامل ہیں۔ ڈیرہ میں جندری کا کام صدیوں سے جاری ہے۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ حکومت اربوں کے ناجائز اخراجات روزانہ کرتی ہے مگر اس روایت کو بچانے کے لیے چند لاکھ خرچ کرنے کو تیار نہیں۔ نہ ہی ہمارے سِوک ادارے اور سیاسی رہنما ادھر توجہ دیتے ہیں۔
بھاولپور میں عین فرید گیٹ کے سامنے بڑا ہینڈی کرافٹ سنٹر تھا جس میں مقامی اور چولستان کی گھریلو مصنوعات خرید و فروخت ہوتی تھیں جس میں غیر ملکی سیاح بھی آتے تھے۔ عرصہ ہوا مین وہاں نہیں گیا آجکل کی صورت حال کا مجھے پتہ نہیں۔
گھریلو صنعتوں کو فروغ دینے کا ایک ہی راستہ ہے حکومت ان کی خرید و فروخت میں اپنا کردار ادا کرے۔ مرغیوں کے پالنے کا کہا گیا مگر مجھے تو کسی حکومت کے آوٹ لیٹ سے کوئ مرغی فروخت ہوتے نظر نہیں ۔
رتہ کلاچی ریسرچ سنٹر پر بڑے پراڈکٹ تخلیق کرنے کی بات ہوتی ہے مگر وہ دفتر میں ختم ہو جاتے ہیں مارکیٹ میں نہیں دیکھے۔
گومل یونیورسٹی کے سیکڑوں پروفیسر باہر ملکوں سے ڈگریاں لے کر آۓ 46 سال میں کوئ ایک پراڈکٹ کی تخلیق عوامی سطح پر نظر نہیں آتی ۔ ورنہ کوئ پیسٹی سائیڈ ایجاد کر کے کروڑوں کماتے اور مالی بحران سے بچ جاتے ۔
یار ہمارے صاحب حیثیت لوگ بھی کوئ انڈسٹری یہاں نہیں لگا سکے۔یارک کے پاس ایک ریفائنری کا بڑا چرچا تھا پھر پتہ نہیں چلا۔ حالانکہ کچھ ڈیرہ والوں کے اربوں کے کاروبار ہیں۔
بھائی لوگو ان معاملات پر توجہ دو ۔سرابوں کا تعاقب چھوڑو۔ ڈیرہ کی ترقی کا انحصار انڈسٹری ۔بے روزگاری دور کرنے۔امن وامان ۔ادارے قائم کرنے پر ہے ۔نعروں سے نئے جہان پیدا نہیں ہوتے۔ ہم سے ڈیرہ وال ہندو جو لٹے پٹے ہندوستان گیے آگے ہیں۔ ہم نے بنا بنایا جیسا لوٹھا ہسپتال برباد کر دیا انہوں نے وہاں کئ منزلہ جدید نیا جیسا لوٹھا ہسپتال نیا بنا لیا۔ کاروں کی انڈسٹری کے مالک بن گیے۔ہم کدھر جا رہے ہیں؟
ویسے میں ظہور احمد لوہار کا یہ گیت سن رہا ہوں؎
دل کتھے کھڑایا ای او بھولے آ۔۔۔
گَل رو ونڑ پالا ای او بھولے آ۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ