گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان اس وقت تاریخ کے شدید ترین توانائی کے بحران کا شکار ہے۔ یہ بحران اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا نہ کرنے اور ہوس زر کی وجہ سے ہوا۔ ہمارے پاس توانائی پیدا کرنے کے لیے بہتے دریا۔ گنگناتے چشمے۔سورج کی روشنی ۔ ایٹمی طاقت ۔کوئلہ ۔ہوا کے لاتعداد ذرائع موجود تھے جن سے بے پناہ بجلی پیدا کی جا سکتی تھی۔ ہم نے اپنی مقامی بجلی کی قیمت سے پچاس گنا زیادہ ریٹ پر غیر ملکی جنریٹر لگواۓ ۔چونکہ پٹرول دنیا میں مہنگا تھا اور درآمد کرنا پڑتا تھا جبکہ ہمارے پاس زر مبادلہ بھی نہیں تھا پھربھی تیل کا ایندھن ہم نےان جنریٹرز کو فراھم کرنا منظور کیا۔ ایک اور شرط یہ رکھی کہ اگر یہ جنریٹر ایک یونٹ بھی نہ بنائیں تو ہر ماہ کیپیسٹی پیمنٹ کرنی پڑے گی ۔معاھدوں کی مدت بھی قیامت کے برابر لمبی رکھی۔
ایسے معاھدے اُس ملک اور قوم سے کراۓ جاتے ہیں جس کو فتح کر لیا گیا ہو جبکہ ہم آذاد ملک تھے۔
اب ان سفید ہاتھیوں کو پالنے کے لیے واپڈا ہر ماہ ہم پر جرمانے کرتا ہے اور واپڈا کو جرمانے کرنے کے اختیار کی کوئ Limit یا حد مقرر نہیں۔ ڈیرہ کے عوام سارا مہینہ لوڈشیڈنگ کا عذاب برداشت کرتے اور مہینے کے آخر میں جرمانے کا بجلی کا بل وصول کرتے ہیں۔
حد یہ کے ان لیڈروں کے حق میں نعرے بھی لگاتے ہیں جنہوں نے یہ عذاب مسلط کیا۔
ہماری یونیورسٹیاں 74 سال میں کوئ ایسا پراڈکٹ نہ بنا سکیں جن کو بیچ کر آمدنی ہوتی اور اپنا خرچہ چلاتیں۔اب یہ شدید مالی بحران کا شکار ہیں اور تنخواہیں تک بند ہیں جس کی تفصیل آج ڈیرہ کے اخبارات میں پڑھ لیں۔
ہم آج سے 74 سال پہلے دیے کی روشنی میں پڑھتے تھے۔ جانوروں کی گوبر سے اپلے یا گوہے بناتے جس سے گھر کی ہانڈی روٹیاور توانائ کا سامان ہوتا۔
میں سوچتا ہوں وہ وقت بہتر تھا کہ ہم قرضوں اور جرمانوں سے آذاد تو تھے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ